ہمارے کلچر میں عورت تو کیا مرد کی دوسری شادی کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ سعودی عرب کے کچھ علاقوں کا کلچر اسکے برعکس ہے۔ سعودی عرب کے صوبے الا جساء کے دیہات اس لحاظ سے انتہائی منفر ہیں یہاں خواتین اپنے خاوندوں کیلئے خود نئی دلنہیں تلاش کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ 1981ء میں اس وقت شروع ہوا جب ایک خاتون نے اپنے خاوند کو دوسری شادی کی ترغیب دی۔ یہ خاتون اپنے خاوند کی نئی دلن کی تلاش میں خود نکلی اور بالا آخر اس کیلئے ایک نو عمر دلن کا انتظام کر ہی لیا۔ ابتداء میں تو لوگوں نے اس خاتون کو پاگل قرار دیا لیکن اس نے یہ دعویٰ کر کے سب کو حیران کر دیا کہ اس پر آسیب کا سایہ تھا جب اس نے اپنے خاوند کی دوسری شادی کروائی تو آسیب جاتا رہا۔اس واقعہ کے بعد ایک اور اہم واقعہ پیش آیا۔
معصومی محمد نامی خاتون کی شادی کو 16سال گزرنے کے باوجود اسکے ہاں اولاد نہیں تھی۔ اس نے بھی اپنے خاوند کی دوسری شادی کروا دی اور اسکے کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو گئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح متعدد اور واقعا ت بھی پیش آئے جسکے بعد خواتین نے اپنے خاوندوں کو خود ہی متعد دشادیوں کیلئے قائل کرنا شروع کر دیا۔ یوں الا حساء کے دیاہت میں یہ روایت اور مضبوط ہو گئی۔ اس کلچر سے گھریلو زندگی اطمینان بخش ہو گئی۔ ریاست مدھیہ پردیش ہی میں ایک گونڈ قبیلہ ہے جہاں کسی بھی خاتون کو بیوہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ اخبار ٹائمز آف نڈیا کے مطابق اس قبیلے کی روایت کے تحر مرنے والے شخص کی بیوی کی شادی اسکے خاندان میں دستیاب کسی بھی مرد سے کر دی جاتی ہے۔ اگر مرنے والے کا بھائی یا کزن وغیرہ دستیاب ہو تو اس سے شادی ہو جاتی ہے ورنہ خاندان کے کسی بچے سے شادی کر دی جاتی ہے۔ اگر خاندان میں کوئی بچہ بھی دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں کسی دوسرے خاندان کی خاتون اس بیوہ کو چاندی کی چوڑیوں کا تحفہ دیتی ہے اور اسے اپنے گھر لے جاتی ہے۔ یوں ایک کا خاوند دوسری کا بھی خاوند بن جاتا ہے۔ گونڈ قبیلے کے گاؤں بیانگہ سے تعلق رکھنے والے شخص پتی ارم کا کہنا ہے کہ جب اسکے دادا کا انتقال ہوا تووہ محض چھ برس کا تھا۔ اس کی بیوہ دادی سے شادی کیلئے کوئی بھی مرد موجود نہ تھا، لہذا اسکے دادا کی موت کے 9دن بعد فیصلہ کیا گیا کہ بیوی دادی چامری بائی کی شدی اسکے چھہ سالہ پوتے سے ہو گی۔ ایسے رسم و رواج کا مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ روایت اور کلچر کی حیثیت رکھتے ہیں بعض روایات قابل رشک بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اجتماعی شادیوں کی روایت پختہ ہو رہی ہے۔ نوجوانوں میں بلڈ ڈونیشن کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ لوگ اپنے اعضا تک عطیہ کر رہے ہیں۔ اعضا کی پیوند کاری ور بلڈ ٹرانفیوژن جدیددور کے عطیات ہیں۔ آج لاکھوں لوگ بلڈ ٹرانسفیوژن اور اعضا کی تبدیلی کے باعث زندگی کی نعمتوں سے دوبارہ سرفراز ہو رہے ہیں۔ یہ سب جدید ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے جس کی اساس اور بنیاد تعلیم ہے جسے با مقصد علم قرار دیا جاتا ہے۔ علم کے ذریعے انسان دل تک کا ٹرانسپلانٹ ممکن ہوا اور انسان چاند کو تسخیر کرنے کے بعد مریخ کا سفر اختیار کر رہا ہے۔ ہم تعلیم کے ذریعے ہی قبیح اور کر یہہ رسوم سے نجا ت حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کارو کاری، ونی، سوبارہ اور مذہبی کتابوں سے شادی جیسے رواج پائے جاتے ہیں ۔ جہالت کے اس اندھیرے سے علم کی روشنی ہی سے نکالا جا سکتا ہے ۔ یہاں فلسفیانہ بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تعلیم و علم کیا ہے ؟ ہمیں سر دست اس تعلیم کی ضرورت ہے جو سکولوں میں دی جاتی ہے۔ تعلیم کی ابتدا یہی ہے جس نے ایتم بم ایجاد کیا وہ بھی کبھی پہلے روز سکول گیا تھا۔ ہمارے عطیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی تعلیم کا آغاز سکول سے کیا تھا۔ سکول ایک دونی دونی والا ہو یا ٹوئینکل ٹوئینکل لٹل سٹار والا، تعلیم کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ اسکے بعد تعلیم کے اعلیٰ مدارج شروع وہتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم کچھ لوگوں کا ’’ کچھ نہیں بگاڑتی ‘‘ وہ جہالت کے گھپ اندھیروں میں ہی زندگی گنوا اور گزار دیتے ہیں، انکی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو سکتی ہے جبکہ تعلیم اکثر کی زندگی اور عاقبت کو سنوار دیتی ہے، انکی زندگیوں کو منور کر دیتی ہے اور معاشرے میں اعلیٰ اقدار کی کار فرمائی کا سبب بھی بنتی ہے۔ آج تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تبدیلی قوم کو با شعور بنائے بنا نہیں آ سکتی ہے۔ جس کا اہم ترین ذریعہ تعلیم ہے اور ہم تعلیم سے ابھی بہت دور ہیں۔ معاشرہ تعلیم یافتہ ہو گا تو تبدیلی کیلئے نعرے لگانے، دعوے کرنے اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی ضرور ت نہیں رہے گی۔