اتنا بڑا فراڈ نہ کبھی سنا ہوگا، نہ کبھی دیکھا ہوگا. سندھ حکومت اور بحریہ ٹاؤن کی میگا کرپشن سامنے آگئی، مسیحا کے روپ میں فراڈ کا بادشاہ!
تفصیلات کے مطابق ملک ریاض آج کل مخلتف وجوہات کی بنا پر خبروں کی زینت بنا ہوا ہے. آج کل ہر طرف ملک ریاض کے کارناموں کی چہ ماگوئیاں ہو رہی ہیں. آپکو بکاؤ میڈیا تو یہ خبر نہیں دکھائے گا کیونکہ کافی چینلز کو ملک ریاض کروڑوں روپے کے فنڈ دیتا ہے اور صحافیوں کو بھی لفافے بھیجتا ہے، اس لیے ہم نے انتہائی جرأت مندی کا فیصلہ کرتے هوئے آپکے سامنے یہ رپورٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.
سب سے پہلے ہم آپکو یہ بتاتے ہیں کہ ملک ریاض کا قصور کیا ہے؟ آخر کن جرائم کی بنا پر ملک ریاض کو آج یہ وقت دیکھنا پڑ رہا ہے؟
1). بحریہ ٹاؤن کے نام کا معاملہ
2). سرکاری لوگوں کیساتھ سازباز
3). بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضہ
سیشن کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ملک ریاض اب مزید بحریہ ٹاؤن کا نام بلکل استعمال نہیں کر سکتے. یہ نام اصل میں صرف و صرف پاک نیوی کا ہے. لہٰذا بحریہ ٹاؤن کا نام تبدیل کر دیا جائے. اب ہم آپکو بتاتے ہیں کہ سندھ حکومت اور بحریہ ٹاؤن نے کس طرح مل کر عوام کا پیسہ لوٹا، کس طرح کرپشن کی گئی، انھوں نے اتنا بڑا جرم کس چالاکی سے کیا، سب کی آنکھوں میں کیسے دھول جھونکی، سپریم کورٹ کی رپورٹ سامنے آگئی:
سپریم کورٹ کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے ملک ریاض نے جو زمین حاصل کی تھی، یہ زمین غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی. 10126 ایکڑ زمین کو غیر قانونی طور پر خریدا گیا اور بحریہ ٹاؤن کراچی بنایا گیا. اس ضمن میں سندھ حکومت کے 225 ارب کا تاریخی غبن میں کردار بھی سامنے آگیا. سندھ حکومت کے حساب کے مطابق سپر ہائی وے پر واقع جو زمین ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ ٹاؤن کو دی ہے، اسکی کل قیمت 6 ارب روپے تھے، جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کا جھوٹ بے نقاب کرتے هوئے کہا ہے کہ اس زمین کی اصل قیمت 6 ارب نہیں بلکہ 334 ارب روپے ہے. اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اتنی مہنگی زمین سندھ حکومت سے سستے داموں میں لیکر 225 ارب روپے کا فائدہ حاصل کیا ہے. یہ سارا منافع اس ملک کے ٹیکس بھرنے والی عوام کے پیسوں سے ہوا ہے. یہ کیسے ہوا ہے، ملاخذہ فرمائیں.
دسمبر 2013 میں بحریہ ٹاؤن نے اپنے پروجیکٹ کے بڑے بڑے اشتہار دینا شروع کر دیے. دو ماہ بعد اس کے محل وقوع کا اعلان کر دیا گیا جو سپر ہائی وے کے قریب ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ملکیت انتہائی مہنگی زمین تھی. سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اس زمین پر 2013 میں چوری چھپے پلاٹ نکالنے اور سڑکیں تعمیر کرنے کا کام شروع کر دیا ہوا تھا. دوسری طرف ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنی سپر ہائی وے والی زمین پر بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی تعمیرات سے مسلسل لاعلمی کا اظہار کر رہا تھا. 2014 میں بحریہ ٹاؤن نے کراچی میں زمین کے چھوٹے چھوٹے منتشر ٹکرے خریدنے شروع کر دیے جس میں تقریباً 39 دیہاتوں پر مشتمل 9 ہزار ایکڑ زمین تھی. مارچ 2015 میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے زمینوں کے مالکان کو اپنی زمینیں ضم کرنے کی گرز سے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیساتھ تبدیل کرنے کے لیے دعوت کا نوٹس جاری کر دیا. پھر بحریہ ٹاؤن آگے بڑھا اور اپنی 9 ہزار ایکڑ کے سستے منتشر زمینی ٹکڑوں کے بدلے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قریب واقعہ سپر ہائی وے پر 7 ہزار ایکڑ زمین کو حاصل کر لیا.
ملک ریاض نے اپنی مکّاری کی بنا پر اپنی 9 ہزار ایکڑ کی سستی اور غیر قیتمی منتشر زمین کے بدلے ایم ڈی اے یعنی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے سپر ہائی وے کے قریب مہنگی ترین 7 ہزار ایکڑ زمین تبدیل کر لی. یہ وہی زمین تھی جس پر ملک ریاض غیر قانونی طور پر ایک سال پہلے ہی قابض تھا اور اس وقت سندھ حکومت اور ایم ڈی اے کو اس چیز کا علم بھی تھا، لیکن انھوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ سب اکٹھے اس غیر قانونی کھیل میں شامل رہے.
سپریم کورٹ کے مطابق زمین کا یہ تبادلہ، مکمل طور پر غیر قانونی تھا. (COGL Act 1912) کے تحت ایم ڈی اے کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ اس زمین کی لین دین کرے، کیونکہ یہ زمین دراصل ایم ڈی اے کی نہیں تھی اور اسی ایکٹ کے تحت ایم ڈی اے کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ یہ سرکاری زمین کے بدلے نجی زمین لے. 2012 کے بعد سندھ حکومت کو سرکاری زمین کے انتقال سے سختی سے منع کیا گیا تھا کیونکہ اس وجہ سے شدید بد عنوانی ماضی میں ہوتی رہیں تھیں لہٰذا سپریم کورٹ کے حکم کی روح سے سندھ حکومت کا اس سرکاری زمین کا انتقال کرنا بھی غیر قانونی تھا کیونکہ ٹیکس دینے والوں اس زمین کی قیمت چکائی تھی. اب سپریم کورٹ نے نیب کو ہدایت کی ہے کہ جلد از جلد اس معاملے کی پوری تحقیقات ازسرنو کی جائے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے.