اپنی خامیوں اور کمیوں کو اپنی طاقت بنائیں


دنیا کی سافٹ کی سب سے بڑی کمپنی مائیکرو سافٹ کو آج سے دس سال پہلے آفس بوائز یعنی چپڑاسیوں کی ضرورت تھی‘ کمپنی نے بیس پڑھے لکھے نوجوانوں کا انتخاب کرلیا‘ ان بیس نوجوانوں نے نوکری کا فارم بھر کر منیجر ایچ آر کے پاس جمع کرا دئیے۔ منیجر نے فارمز کامطالعہ کیا تواس نے دیکھاایک کنڈی ڈیٹ نے فارم میں اپنا ایمیل ایڈریس نہیں لکھا تھا۔ منیجر نے اس نوجوان سے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا”جناب میرے پاس کمپیوٹر نہیں ہے چنانچہ میں نے اپنا ای۔میل نہیں بنایا“۔ منیجر نے اس سے غصے سے کہا ”آج کے دور میں جس شخص کا ای میل ایڈریس نہیں ہوتاوہ گویا دنیا میں وجود نہیں رکھتا اور ہم ایک بے وجود شخص کو نوکری نہیں دے سکتے۔منیجر نے اس کے ساتھ ہی اس کی درخواست پر ری جیکٹڈ(Rejected) کی مہر لگا دی۔اس وقت اس نوجوان کی جیب میں صرف دس ڈالرز تھے۔ نوجوان نے ان دس ڈالرز سے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا‘اس نے دس ڈالرز سے ٹماٹر خریدے اور شہر کے ایک محلے میں گھر گھر بیچنا شروع کر دئیے۔ ایک گھنٹے میں نہ صرف اس کے ٹماٹر بک گئے بلکہ اسے 15ڈالر منافع بھی ہو گیا۔ دوسرے دن وہ 20ڈالرز کے ٹماٹر خرید لایا‘ یہ ٹماٹر 40ڈالرز میں بک گئے‘دو دن بعداس کا سرمایہ سو ڈالرز تک پہنچ گیا۔ قصہ مختصر نوجوان کا کاروبار چل نکلا اوراس نے موٹر سائیکل پر پھیری لگانا شروع کر دی‘ پھر اس نے وین خرید لی‘ اس کے بعد اس نے بڑا ٹرک لے لیا اور لوگوں کے گھروں میں سبزی سپلائی کرنے لگا۔ اس ٹرک نے جلد ہی کمپنی کی شکل اختیار کر لی۔ اس نے بڑے بڑے گودام بنائے‘ دو اڑھائی سو لوگ ملازم رکھے۔ بیس پچیس گاڑیاں لیں اور پورے شہرکو سبزیاں فراہم کرنے لگا۔تین چار برسوں میںامریکا کی دوسری ریاستوں میں بھی اس کی کمپنی کی شاخیں کھل گئیں اور یوں وہ کروڑ پتی بن گیا۔ اس دوران اس شخص نے شادی کر لی‘ شادی کے بعد اس نے اپنی بیوی کیلئے انشورنس پالیسی لینے کا فیصلہ کیا‘ انشورنس ایجنٹ آیا‘ اس نے انشورنس کا فارم پر کیا اور اس سے کہا ”مسٹر فلپ آپ مجھے اپنا ای میل ایڈریس لکھوا دیں تا کہ میں آپ کو کانٹریکٹ میل کر دوں“ فلپ نے مسکرا کر جواب دیا ”لیکن میں نے تو آج تک اپنا ای ۔۔میل نہیں بنایا“خامیوں انشورنس ایجنٹ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور بولا ”کمال ہے جناب آپ نے کمپیوٹر اور ای ۔میل کے بغیر اتنی ترقی کر لی۔ آپ سوچئے آپ اگر کمپیوٹر اور ای میل استعمال کررہے ہوتے تو کہاں ہوتے“۔ فلپ نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور بولا ”اگر میراایمیل ہوتا تو میں اس وقت مائیکرو سافٹ میں چپڑاسی ہوتا کیونکہ جن انیس نوجوانوں کے ای میل ایڈریس تھے وہ آج بھی وہاں چپڑاسی کی نوکری کر رہے ہیں۔سچ ہے زندگی میں بعض اوقات انسان کی بعض خامیاں‘ بعض کوتاہیاں اور بعض کمیاں اس کی ترقی کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔