دوٹن مٹی کا بوجھ


وہ اللہ سے لڑ رہاتھا‘ بچپن میں کسی نجومی نے اسے بتایا تھا وہ ستر سال کی عمر پائے گا‘ اس نے نجومی کی بات سنی اور بڑے دعوے سے جواب دیا ’’میں تمہیں ڈیڑھ سوسال تک زندہ رہ کر دکھاؤں گا‘‘ نجومی نے حیرت سے سیاہ فام نوجوان کی طرف دیکھا‘ نوجوان بولا ’’افسوس تم مجھے ڈیڑھ سو سال تک زندہ نہیں دیکھ سکو گے کیونکہ تم مجھ سے سو سال پہلے مر چکے ہوگے‘‘۔نجومی نے اس بے وقوفانہ دعوے پر قہقہہ لگایا اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ہم اگر آج اس کی زندگی کا تجزیہ

کریں تو یہ ہمیں دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک قدرت کے فیصلوں کا انکار اور دوسرا موسیقی۔ وہ دنیائے موسیقی کا شہنشاہ تھا۔ اس نے راک‘ فنک اور سول موسیقی میں کمال کر دیا۔وہ کنگ آف میوزک تھا‘ وہ اپنے والد کا ساتواں بچہ تھا‘ یہ سیاہ فام خاندان تھا اور یہ بھی دوسرے سیاہ فام خاندانوں کی طرح برسوں سے جسمانی‘ ذہنی اور روحانی غلامی سے آزادی کی کوشش کر رہا تھا۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں امریکہ کے غلاموں کو تھوڑی تھوڑی آزادی ملنا شروع ہوئی تو انہوں نے سفید فام آقاؤں کے ان پسندیدہ اور محبوب شعبوں کا انتخاب کیا جن سے یہ لوگ امریکی معاشرے میں وقار بھی حاصل کر سکتے تھے اور سفیدفام آقاؤں سے بدلہ بھی لے سکتے تھے چنانچہ یہ لوگ موسیقی اور رہبانیت میں جانے لگے‘ یہ لوگ پادری بن گئے اور راک موسیقی کا میدان سر کرنے لگے۔ اس دور میں اس کے بڑے بھائیوں نے بھی ایک چھوٹا سا بینڈ بنالیا‘ یہ لوگ کلیساؤں کے سامنے ریلوے اسٹیشن اورڈاؤن ٹاؤن میں کھڑے ہو جاتے‘ میوزک بجاتے‘ گاتے‘ ڈانس کرتے اور لوگ ان کے فن کی داد دیتے۔ یہ لوگ چھوٹے بڑے سٹیج پر بھی پرفارم کرتے تھے اور انہوں نے اپنا ایک البم بھی بنایا اور ان کے ایک گانے ’’آئی وانٹ یو بیک‘‘ نے 1969ء میں مقبولیت بھی حاصل کی تھی لیکن اس کے باوجود یہ بینڈ صف اول میں شامل نہ ہو سکا۔ننھا گلوکار اس بینڈ میں طنبورہ اور بونگو بجاتا تھا‘ اس کے ذہن میں بے شمار نئے آئیڈیاز آتے تھے‘ وہ ان آئیڈیاز کو عملی شکل بھی دینا چاہتا تھا لیکن وہ اپنے بڑے بھائیوں اور والد کے جبر کا شکار تھا۔ اس کے والد اسے بری طرح تشدد کا نشانہ بناتے تھے جبکہ وہ اپنے چھ بڑے بھائیوں کا’’ چھوٹا‘‘ تھا۔ وہ اس سے ذاتی ملازم جیسا سلوک کرتے تھے ‘ اس فضا میں اس کے آئیڈیاز گھٹ گھٹ کر مرنے لگے تھا۔وہ جینئس تھا‘ وہ تخلیق کے جوہر سے شہ رگ تک بھرا ہوا تھا اوریہ حقیقت ہے ایسے لوگ زیادہ دنوں تک دوسروں کے ماتحت نہیں رہ سکتے چنانچہ اس نے بھی ایک دن بھائیوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار دیا۔ وہ جیکسن فائیو سے الگ ہو گیا اور اس نے امریکہ کے مشہور موسیقار کوئنسی جونز کے ساتھ مل کر اپنا پہلا سولو البم ’’آف دی وال‘‘ لانچ کر دیا‘ یہ البم 1978ء میں ریلیز ہوا تواس کی ایک کروڑ کاپیاں فوراً فروخت ہو گئیں۔ اس البم کے تین گانے ڈونٹ سٹاپ‘ ٹل یو گٹ اینف اور راک ودھ یو چند ماہ میں امریکی اور یورپین باشندوں کے ہونٹوں کا حصہ بن گئے اورمائیکل جیکسن موسیقی کا دیوتا بن کر پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔ یہ اس کی زندگی کی پہلی کامیابی تھی‘ یہ کامیابی اس کیلئے پرانی شراب ثابت ہوئی اور وہ شہرت‘ غرور اور تکبر کا شکار ہو گیا اور یہی وہ دور تھا جب اس نے نیویارک کے نجومی کو ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنے کا چیلنج دے دیاتھا۔مائیکل جیکسن کو چار چیزوں سے نفرت تھی‘ اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی‘ وہ گوروں کی طرح دکھائی دینا چاہتا تھا‘ اسے گمنامی سے نفرت تھی‘ وہ دنیا کا مشہور ترین شخص بننا چاہتا تھا‘ اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی‘ وہ اپنے ماضی کو اپنے آپ سے کھرچ کر الگ کردینا چاہتا تھا اوراسے عام لوگوں کی طرح ساٹھ‘ ستر یا اسی برس میں مر جانے سے بھی نفرت تھی ‘ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا جو ایک سو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے‘ اپنا آخری گانا گائے ‘ پچیس سال کی گرل فرینڈ کے ماتھے پر بوسہ دے اور لاکھوں کروڑوں مداحین کی موجودگی میں دنیا سے رخصت ہو جائے۔ مائیکل جیکسن کی آنے والی زندگی ان چار نفرتوں اور ان چار خواہشوں کی تکمیل میں بسر ہوئی۔ اس نے 1982ء میں اپنا دوسرا البم ’’تھرلر‘‘ لانچ کیا‘ یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا البم تھا۔ایک ماہ میں اس کی ساڑھے چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں اور یہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا تھا۔ تھرلر کے نو میں سے سات گانوں نے میوزک چارٹ میں جگہ بنا لی تھی۔ مائیکل جیکسن اب دنیا کا مشہور گلوکار تھا‘اس نے گمنامی کو شکست دے دی تھی‘ اس نے اس خواہش کی تکمیل کے بعد اپنی سیاہ جلد کو شکست دینے کا فیصلہ کیا‘ اس نے پلاسٹک سرجری اور سکن بلیچنگ شروع کرا دی۔ وہ پلاسٹک سرجری کے درجنوں مراحل سے گزرا لیکن اس نے صرف دو کا اعتراف کیا۔ اس نے پانی کی طرح پیسہ بہایا‘ اس نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیںیہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت‘ جلد‘ نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔ اس نے 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی‘ یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی‘ یہ البم بھی کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا۔ وہ ملکوں ملکوں ‘ شہر شہرگیا ‘ موسیقی کے شو کئے اوران شوز سے کروڑوں ڈالر کمائے۔ یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔اس کے بعد ماضی کی باری آئی ‘ مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کر دیا‘ اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے‘ اس نے کرائے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لئے اور اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔ اس نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی بھی کر لی۔اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا دئیے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرا لیا۔ ڈیبی رو کے بطن سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی۔اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی‘ اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑا لی لہٰذا اب اس کی آخری نفرت یا خواہش کی باری تھی۔ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کیلئے دلچسپ حرکتیں کرتاتھا‘ مثلاً وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا‘وہ جراثیم‘ وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا۔ وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے۔ یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے‘ اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا‘ اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں‘ گردوں‘ آنکھوں‘ دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا‘یہ ڈونر تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کر دینا تھے چنانچہ اسے یقین تھا وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے گا لیکن پھر 25جون کی رات آئی ‘ اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی‘ اس کے ڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئرڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پرجمع کر لیا‘یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے تو یہ اسے ہسپتال لے گئے اور وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی‘جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا‘ جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھا لیتا تھا‘ جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا تھا۔ وہ شخص 50سال کی عمر میں صرف تیس منٹ میں انتقال کر گیا۔ اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کر گئی۔ مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبر گوگل پر دس منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی‘یہ گوگل کی تاریخ کا ریکارڈ تھا اور اس ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو 25منٹ تک اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی۔ مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا احتیاط کی وجہ سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا‘ وہ سر سے گنجا تھا‘ اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ اس کے کولہے‘ کندھے‘ پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔ وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ’’پین کلرز‘‘ کا محتاج ہو چکا تھا چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز‘ یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہیں بچا سکے اوروہ ایک دن چپ چاپ اُس جہان شفٹ ہو گیا جس میں ہر زندہ شخص نے پہنچنا ہے اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔مائیکل جیکسن کی موت ایک اعلان ہے‘ انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ موت اور اس موت کو لکھنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی راک سٹار ہو یا کوئی فرعون وہ دو ٹن مٹی کے بوجھ سے نہیں بچ سکتا۔ وہ قبر کو شکست نہیں دے سکتا لیکن حیرت ہے ہم مائیکل جیکسن کے انجام کے بعد بھی خود کو فولاد کا انسان سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہم موت کو دھوکہ دے دیں گے‘ ہم ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہیں گے۔