عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے!


ایک غریب آدمی کے تین بیٹے تھے،جو کچھ اس کودال روٹی میسرہوتی ان کوکھلاتا تھا.ان میں سے ایک بیٹا باپ کی غریبی اوردال روٹی سے ناخوش رہتا تھا،چنانچِہ اس نے ایک دولتمند نوجوان سے دوستی کرلی اوراچھا کھانا ملنے کے لالچ میں اس کے گھرآنے جانے لگا.
ایک دن ان کے درمیان کسی بات پراَن بن ہوگئی.دولت مند نے اپنی امیری کے گھمنڈ میں اسے خُوب مارا پیٹا اوردانت توڑ ڈالے.تب وہ غریب اپنے دل ہی دل میں توبہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میرے باپ کی پیار سے دی ہوئی دال روٹی اس ماردھاڑ اور ذلت کے تَرنوالے سے بہتر ہے،اگر میں اچھے کھانے پینے کی حِرص نہ کرتا توآج اتنی مار نہیں کھاتا اور میرے دانت نہیں ٹوٹتے.نصیحت:اس طرح کے بہت سے غریب نوجوان ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو دولت سے ملنے والے عارضی فائدوں کےفائدوں کے لئے امیرزادوں سے دوستیاں لگاتے ہیں اور حرص ولالچ کے ہاتھوں ذلت اٹھاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو نشے جیسی مہلک عادت اورجرائم میں بھی ملوث ہوکر اپنے غریب والدین کے لئے مزید دُشواریوں کا باعث بنتے ہیں.دوستی نیک اسلامی بھائیوں سے ہونی چاہئے اوراللہ عزوجل کی رضا کے لئے ہونی چاہئے. پیارے آقا،مکی مدنی سلطان،رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:اچھے اور برے مصاحِب کی مِثال،مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے،کستوری اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی،جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی.(مسلم،،ص4141،رقم الحدیث 8262)ہمیں چاہئے کہ دینی مَشغلوں اور دُنیا کے ضَروری کاموں سے فَراغت کے بعد خَلْوَت یعنی تنہائی اِختیار کریں یا صِرْف ایسے سنجیدہ اورسنّتوں کے پابند اسلامی بھائیوں کی صُحبت حاصِل کریںجن کی باتیں خوفِ خداوعِشقِ مصطَفٰی عزوجل وَ صلَّی ﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اضافے کا باعِث بنیں اور وہ وقتاً فوقتاً ظاہری برائیوں اور باطِنی بیماریوں کی نشاندہی کرتے اوران کا علاج تجویز فرماتے ہوں.اچّھی صحبت کے مُتَعَلِّق دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم مُلاحَظہ ہوں:(1)اچّھا رفیق وہ ہے کہ جب تو خداعَزَّوَجَلَّ کو یاد کرے تو وہ تیری مدد کرے اور جب تو بُھولے تو وہ یاد دلائے.(موسوعۃ الامام لِابْنِ اَبِی الدُّنْیا،ج 8،ص 161 رقم24 )(2)اچّھا رفیق وہ ہے کہ اُس کے دیکھنے سے تمہیں خدا عَزَّوَجَلَّ یاد آئے اور اُس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں زیادَتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخِرت کی یاد دلائے.(شُعَبُ الْاِیمان ج7،ص75 حدیث6449) (ماخوذ ازغیبت کی تباہ کاریاں ص752)بُرے ماحول کواپنانے والے افراد اپنی عزت و وقار اور حیثیت کو کھودیتے ہیں،اس کی مثال یوں سمجھیں کہ وہ مکھی کی دوسری قسم کی روش کو اپناتے ہیں یعنی چمنستان موجود ہے اطراف سرسبز وشاداب اور گل و گلزار بھی ہے مگر وہ مکھی غلاظت ہی کا انتخاب کرتی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ وہ تمام خوبصورت جسم کو چھوڑ کر صرف اسی مقام کا انتخاب کرتی ہے جو زخمی ہوتا ہے جس میں خون و پیپ بھرا ہوتا ہے اسی لئے لوگ اس سے متنفر ہوتے ہیں اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ غلیظ ماحول سے تعلق رکھنے والی مکھیاں وبا وبیماری ہی کا ذریعہ بنتی ہیں معلوم ہوا کہ غلیظ اور گھناؤنے ماحول سے وابستہ ہونے والے افراد اپنے وقار ہی کو مجروح نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی عزت و وقار کے بھی درپے ہوتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم بُرے ماحول اور بری صحبت سے اجتناب کریں.سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے.
..