ایک سپیرا دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل، بیابان، کوہ و صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا. ایک دفعہ سخت سردی کے موسم میں پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا کہ اس نے ایک مردہ اژدھا دیکھا، جو بھاری بھر کم اور قوی الجثہ تھا.
اژدھا کیا تھا ستون کا ستون تھا. اسے خیال آیا اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو جائے گا.لوگوں کے جمع ہو جانے سے میں خوب مال کماؤں گا. سپیرا اسے بڑی مشکل سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گھسیٹ کر شہر لے آیا. سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں اودھم مچ گیا.. “تُو چل میں چل” جس کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ سپیرا ایک نادر قسم کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا. سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہو گئے. بے پناہ سردی اور برف باری کی وجہ سے اژدھے کا جسم سُن ہو چکا تھا جس کے باعث وہ مردہ دکھائی دے رہا تھا. سپیرے کے گھسیٹ کر لانے’ ہجوم کی گرمی اور سورج کی روشنی سے اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا. اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہو گئی. بد حواسی اور خوف سے جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا. جوں جوں آفتاب کی گرم دھوپ اژدھے پر پڑتی تھی توں توں اس کے جوڑ جوڑ اور بند بند میں زندگی نمودار ہونے لگی. مارے دہشت کے سپیرے کے ہاتھ پاؤں پُھول گئے اس نے جی میں کہا یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا. اپنے ہاتھوں اپنی موت بلا لی. ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اس کو نگل لیا پھر وہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک بلند عمارت کے ستون سے اپنے آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہو گئیں. (حکایاتِ رومی ) ہمارا نفس بھی اژدھے کی مانند ہے.. اسے مردہ مت سمجھو.. ذرائع اور وسائل نہ ہونے کے باعث سُن نظر آتا ہےاللہ تعالٰی کی عبادت سے غفلت اور دنیا داری کی حرارت سے وہ حرکت میں آجاتا ہے.. لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنا وقت عبادتِ الٰہی میں گزاریں تاکہ ہمارے نفس کو حرکت میں آنے کی ہمت نہ ہو اور یہ ہم پرحاوی نہ ہو سکے
..