جنگ کے وقت چونڈہ میں ایک چھوٹا سا بازار تھا اسی بازار میں ایک سٹور تھا۔ بشیر جنرل سٹور۔ جنگ میں جب فوج نے شہریوں کو قصبہ خالی کرنے کا کہا تو لوگ اپنی دوکانیں اور گھربار چھوڑ کر چلے گئے۔ جلدی میں کوئی سامان اٹھانے کا موقع نہ مل سکا۔ گھروں اور دوکانوں میں تمام قیمتی سامان بھی جوں کا توں موجود تھا۔ 14روزہ جنگ کے بعد جب لوگ اپنے گھروں میں واپس آئے تو بہت سی دوکانوں اور گھروں سے سامان غائب تھا۔ پاک فوج پوری طرح چوکس تھی۔ لیکن پھر بھی کچھ موقع پرست ہاتھ مارنے میں کامیاب ہو گئے۔ بشیر رندھاوا بھی جب دوکان پر واپس آئے تو دوکان کے تالے ٹوٹے ہوئے تھے۔ سامان تو اتنا چوری نہ ہوا تھا البتہ نقدی غائب تھی۔ زندگی کا نظام دوبارہ شروع ہو گیا۔ لوگ جنگ کے نقصانات سے بے پروا اپنے اپنے کاروبار میں مگن ہو گئے۔
ابھی جنگ بند ہوئے چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک دن پاک فوج کی ایک جیپ آ کر بشیر جنرل سٹور پر رکی۔ جیپ سے دو فوجی جوان نیچے اترے اور بشیر کو پوچھا یہ دوکان آپ کی ہے۔ انہوں نے بتایا جی میری ہی ہے۔ فوجی جوان نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایک لفافہ بشیر صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ اپنی رقم گن لیں ایک دن ہم گشت پر تھے اور کچھ لوگ آپ کی دکان لوٹ رہے تھے، ہمیں دیکھ کر وہ بھاگ گئے۔ یہ رقم اٹھانے کا ان کو موقع نہ مل سکا۔ ہم یہ رقم اپنے ساتھ لے گئے اور کمانڈر صاحب کے پاس جمع کرا دی۔ اپنی امانت وصول کر لیں اور ہمیں رسید بنا دیں۔ بشیر رندھاوا اب اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کا بیٹا اپنے والد سے سنی ہوئی داستان سناتے ہوئے آج بھی آب دیدہ ہو جاتا ہے۔