شادی


شادی کی پچاسویں سالگرہ منائی جا رہی تھی، لوگ اس جوڑے کے بارے میں بڑی رشک آمیز باتیں کرتے تھے. ہر گھر میں میاں بیوی کے اختلاف دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں لیکن ان دونوں کو کسی نے ایک بار بھی آپس میں اختلاف کرتے نہیں دیکھا تھا.

شوہر نے بیوی کو کبھی ڈانٹا تک نہیں تھا، لوگ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح اس بوڑھے شوہر سے وہ نسخہ معلوم کریں جس سے ان دونوں میں مثالی یگانگت قائم ہے! جب سالگرہ منائی جا چکی تو ایک بے تکلف دوست نے بڑے میاں سے سرگوشی میں سوال کیا. ” دوست! آج تمھیں میری ایک اُلجھن دور کرنی پڑے گی میرے ذہن میں ایک سوال ہے جس پرسوچتے سوچتے میرے سر میں درد پیدا ہو گیا ہے لیکن ہنوز کسی اطمینان بخش جواب سے محروم ہوں.” بڑے میاں نے کہا. ” اگر میں تمھارے سوال کا جواب دے سکا تو یقیناًتمھیں مایوس نہیں کروں گا!” دوست نے پہلو بدلتے ہوئے سراپا اشتیاق بن کر پوچھا. ” میں تمھیں

ایک عرصے سے جانتا ہوں اور تمھارے حلقہ احباب میں بہت سے ایسے حضرات بھی شامل ہیں جو تمھیں مجھ سے پہلے سے جانتے ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے ، جسے تمہاری خوش گوار ازدواجی زندگی کا راز معلوم ہو. کسی نے تم دونوں کو آج تک آ پس میں اختلاف کرتے نہیں دیکھا. تمھاری بیوی کی طرف سے تمھیں ہمیشہ غیر معمولی اور مثالی تعاون حاصل رہا ہے.” بڑے میاں کچھ سوچنے لگے. ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی. کچھ دیر بعد بولے. “یہ کوئی اتنا بڑا راز نہیں ہے جس سے تم اُچل پڑو. بس ایک معمولی سا نکتہ ہے . میں نے اسے اب تک مصلحتہً چھپائے رکھا تھا لیکن شاید اب اس کا اخفا مناسب نہیں ہے. پھر وہ کچھ سوچ کر کہنے لگا. ” جب میری شادی ہوئی تھی، میرے قصبے کے آس پاس دُور دُور تک ریلوے لائن نہیں بچھی تھی اور ہمیں اپنا سفر گھوڑے پر طے کرنا پڑتا تھا. ایک مرتبہ میں اپنی بیوی کو لے کر گھر آ رہا تھا. بیوی گھوڑے پر میرے آگے بیٹھی تھی، ابھی میں اپنے قصبے سے خاصی دُور تھا کہ گھوڑا اَڑنے لگا، میں نے گھوڑے کو درشتی سے جھڑکتے ہوئے کہا. ” بس ایک بار. میں تیرا اڑیل پن ہر گز برداشت نہیں کروں گا. تیری بہتری اسی میں ہے کہ تو اڑنے سے باز رہ!” گھوڑا سیدھا ہو گیا اور کچھ دُور تک ٹھیک ٹھاک چلتا رہا لیکن یکایک پھر اڑنے لگا. میں نے اسے دوبارہ سرزنش کی کہ گھوڑے ! میں بار بار ایک ہی بات کہنے کا عادی نہیں ہوں. ابھی تھوڑی دیر پہلے میں تجھ سے کہہ چکا ہوں کہ بس ایک بار اور اس کے بعد تجھے کوئی موقع نہیں دیا جائے گا!” اتفاق کی بات کہ گھوڑا پھر دُرست ہو گیا اور ٹھیک ٹھاک چلنے لگا. لیکن کوئی دو تین فرلانگ کے بعد پھر وہی چھیڑ چھاڑ کرنے لگا. میں گھوڑے سے اتر پڑا اور بیوی کو بھی سہارا دے کر اُتار لیا. پھر میں نے پستول ہاتھ میں لے کر گھوڑے کا بھیجا اڑا دیا.

گھوڑا گرا اور اس نے پیر رگڑ رگڑ کے دم توڑ دیا. بیوی کو گھوڑے کی موت کا بڑا دُکھ ہوا. اس نے پوچھا. ” ابھی کتنا سفر باقی ہے؟” میں نے جواب دیا. ” تقریباً دو میل!” بیوی نے تشویش سے پُوچھا. یہ سفر کس طرح طے ہو گا؟” میں نے جواب دیا. “پیدل . ہم دونوں پیدل چلیں گے!” بیوی نے پریشان ہو کے کہا “پیدل! لیکن مجھ سے تو اتنا فاصلہ پیدل نہیں طے کیا جائے گا!” میں نے درشت لہجے میں کہا. “لیکن مجبوراً یہ فاصلہ تو ہمیں پیدل ہی طے کرنا پڑے گا.” بیوی نے مُردہ گھوڑے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. ” غریب گھوڑے کی خطا ایسی تو ہر گز نہیں تھی کہ آپ اسے گولی مار دیتے.” میں نے بیوی کو خشم ناک نظروں سے گھورا اور جس طرح گھوڑے سے دوبار کہا تھا. بیوی سے کہا. ” بس ایک بار. میں زیادہ باتیں پسند نہیں کرتا.” بیوی سہم گئی اور اس نے دو میل کا سفر بے چون و چرا پیدل کر ڈالا. اس دن کے بعد آج تک میری بیوی نے کوئی ایسی بات نہیں کی کہ مجھے دوبارہ یہ کہنا پڑتا کہ بس ایک بار. ہم دونوں زندگی کا طویل سفر طے کر کے آج پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں. اس بیچاری نے ایک بار بھی تو اَڑسے کام نہیں لیا.”

..