آپ نے محاورہ سنا ہو گا ’’جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں آگ بھی ضرور ہوتی ہے‘‘ حکومت لاکھ دعویٰ کرے فوج کے ساتھ ہمارا کوئی اختلاف نہیں مگر بیانات‘ پریس ریلیز اور آگ وزراء کے چہروں کی ہوائیاں آگ کی نشاندہی کیلئے کافی ہیں‘ ‘‘ لہٰذا دھواں بھی ہے اور آگ بھی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ سینیٹر عاجز دھمراکا انکشاف سن لیں‘ عاجز دھمرا پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر ہیں‘ یہ سندھ کے ضلع سانگھڑ سے تعلق رکھتے ہیں‘ انہوں نے 15 اپریل کو لائیو ٹیلی ویژین شو میں انکشاف کیا‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام میاں نواز شریف سے ملاقات کیلئے وزیراعظم ہاؤس گئے تو آرمی کے جوانوں نے وزیراعظم کے دفتر کے دروازے تک کاکنٹرول سنبھال لیا‘میٹنگ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی موجود تھے‘ وزیراعظم کے آفس سے چپڑاسی کو بلانے کیلئے بار بار گھنٹی بجائی گئی مگر جب کوئی شخص اندر نہ آیا تو میاں شہباز شریف اٹھ کر باہر نکلے‘ فوج کے جوان دروازے تک کھڑے تھے‘ میاں شہباز شریف نے تدبر کا مظاہرہ کیا ورنہ معاملات خراب ہو سکتے تھے‘ فوجی حکام نے اس اقدام کو ’’سیکورٹی‘‘ قرار دیا‘ ان لوگوں کا کہنا تھا ’’ حالات خراب ہیں‘ ہم ان حالات میں کسی جگہ اور کسی شخص پر اعتماد نہیں کر سکتے‘‘ سینیٹر عاجز دھمرا کی بات درست تھی کیونکہ یہ واقعہ میں نے بھی ایک اہم ترین شخصیت سے سنا تھا‘ اس شخصیت کا کہنا تھا‘ سیکورٹی کے اس اتمام حجت کے ذریعے حکومت کو یہ پیغام دیا گیا ’’ آپ ریڈ لائین سے پاؤں اٹھا لیں‘
اس لائین سے آگے خطرات ہی خطرات ہیں‘‘ یہ واقعہ کس حد تک درست ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا لیکن دھواں اور آگ بہرحال دونوں موجود ہیں۔ ہم اب آتے ہیں حالات کی خرابی یا اختلافات کی وجوہات کی طرف۔ میاں نواز شریف کے اردگرد اس وقت چار کابینہ ہیں ‘ بیورو کریٹک کابینہ‘ گورنمنٹ کابینہ‘ کچن کابینہ اور فیملی کابینہ۔ بیورو کریٹک کابینہ چند بیورو کریٹس پر مشتمل ہے‘ یہ جونیئر سرکاری افسر ہیں مگر سینئر ترین عہدوں پر فائز ہیں‘ ان کا جونیئر ہونا وہ کمزوری ہے جو انہیں ہر قسم کے سمجھوتے پر مجبور کر دیتی ہے چنانچہ یہ وزیراعظم کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ یہ صرف ’’جو آپ نے فرمایا‘‘۔ ’’تعمیل ہو گی سر‘‘ اور ’’حکم سر‘‘ کی بنیاد پر زندگی گزار رہے ہیں‘حکومتی کابینہ 20وفاقی وزراء اور10 وزراء مملکت پر مشتمل ہے‘ ان میں سے 99فیصد وزراء سیاسی فیصلوں کے دائرے سے باہر ہیں‘ وزیراعظم کو مشورہ دینا تو درکنار لوگ میاں صاحب سے ملاقات ہی نہیں کر پاتے چنانچہ یہ لوگ اداروں کا ٹکراؤ روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے‘ تیسری کابینہ وزیراعظم کی کچن کابینہ ہے‘ یہ اہم ترین اور فیصلہ ساز کابینہ ہے‘ اس کابینہ میں اسحاق ڈار‘ چودھری نثار علی خان اور طارق فاطمی شامل ہیں‘ اسحاق ڈار سمجھ دار اور معاملہ فہم انسان ہیں‘ یہ درمیان کا راستہ نکالنے کے ماہر ہیں‘ یہ معاملات کو انتہا تک نہیں جانے دیتے‘ ہم اگر حکومت کی گیارہ ماہ کی کامیابیوں کا گراف بنائیں تو اس کا نوے فیصد کریڈٹ اسحاق ڈار کو جائے گا‘ بجلی کے گردشی قرضے ہوں‘ سعودی عرب سے ڈیڑھ بلین ڈالر کا تحفہ ہو‘ ڈالر کو 110 سے 98 روپے تک لانے کا کارنامہ ہو‘ سٹاک ایکس چینج کی ریکارڈ توڑ کامیابی ہو یا پھر بیرونی سرمایہ کاری ہو یہ سارے کارنامے اسحاق ڈار کے ہیں‘ میاں نواز شریف ان پر بے انتہا اعتماد بھی کرتے ہیں‘ طارق فاطمی فارن افیئرز میں میاں نواز شریف کی آنکھیں اور کان ہیں‘یہ کسی بھی وقت وزیراعظم کو فون کر سکتے ہیں یا ملاقات کر سکتے ہیں‘ مخبروں کا کہنا ہے‘ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سیاست میں لانا چاہتے ہیں‘ یہ انہیں وزیر خارجہ کا قلم دان سونپنا چاہتے ہیں
اور طارق فاطمی ان کی تربیت کر رہے ہیں یا مستقبل میں کریں گے‘چودھری نثار علی خان اس کچن کابینہ کے تیسرے اہم رکن ہیں‘ چودھری صاحب کے ساتھ میاں صاحب کا عجیب تعلق ہے‘ یہ ان کے قریب بھی ہیں اور انتہائی دور بھی۔ یہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں اور معاملات کو ان سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ چودھری نثار علی خان فوج کے قریب سمجھے جاتے ہیں‘ یہ 1998ء میں جنرل پرویز مشرف کے سفارشی بھی تھے‘جنرل پرویز مشرف کو چودھری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف نے بریگیڈیئر نیاز کی لابنگ پر میاں نواز شریف سے ملایا تھا‘ چودھری نثار کے سگے بھائی جنرل افتخار میاں نواز شریف کی سابق حکومت میں سیکرٹری دفاع بھی رہے ہیں‘ شریف فیملی چودھری نثار کے رویئے پر نالاں بھی رہی۔ میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز شریف چودھری صاحب سے ملاقات سے بھی پرہیز کرتے ہیں‘ حسین نواز کا دعویٰ ہے ’’فوج جب بارہ اکتوبر1999ء کو ہم سب کو گرفتار کر رہی تھی تو چودھری نثار علی خان میری آنکھوں کے سامنے پرائم منسٹر ہاؤس سے چپ چاپ باہر چلے گئے‘ فوج کے کسی افسر نے انہیں نہیں روکا‘‘شریف برادران اور ان کے ساتھی خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید جب زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے تھےتو چودھری صاحب اس وقت نیم نظر بندی سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ یہ نظر بندی میں ہونے کے باوجود اپنے گاؤں چکری بھی چلے جاتے تھے‘ جنرل پرویز مشرف سے ان کے رابطوں کی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی‘ شریف فیملی اس حقیقت سے واقف تھی‘ حسین نواز اور بیگم کلثوم نواز چودھری نثار کو اہمیت دینے پر میاں صاحب سے کئی بار احتجاج بھی کر چکے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود وزیر داخلہ بھی ہیں اور کچن کابینہ کا حصہ بھی۔ ہم اگر اس کچن کابینہ کا دائرہ ذرا سا وسیع کر لیں تو خواجہ آصف‘ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق بھی اس دائرے میں آ جاتے ہیں‘ چودھری نثار کی اسحاق ڈار اور خواجہ آصف سے شدید چپقلش چل رہی ہے‘ خواجہ آصف کے ساتھ ان کی ڈیڑھ سال سے علیک سلیک تک نہیںجبکہ اسحاق ڈار کے ساتھ ان کے تعلقات صرف سلام دعا تک محدود ہیں‘ چودھری نثار علی خان جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھجوانے کے حامی ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہمیں فوج پر ’’احسان‘‘ کر دینا چاہیے‘میاں شہباز شریف اس معاملے میں چودھری صاحب کے حامی ہیں‘اسحاق ڈار اس معاملے میں نیوٹرل ہیں تاہم خواجہ آصف‘ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق فوجی آمر کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں‘ میاں نواز شریف نے یکم اپریل کو جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کے معاملے پر میٹنگ بلائی‘ اس میٹنگ کے دوران خواجگان کو محسوس ہوا چودھری نثار علی خان جنرل مشرف کے معاملے میں فوج سے ’’ڈیل‘‘ کر چکے ہیں‘یہ دونوں باہر نکلے اور ان کے بیانات نے معاملہ بگاڑ دیا‘ خواجہ آصف کا بیان سوچا سمجھا تھا جبکہ خواجہ سعد رفیق اپنی روایتی سادگی اور کھرے پن کی وجہ سے مارے گئے‘ میڈیا نے بھی ان کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا‘ میرا خیال ہے خواجہ سعد رفیق اس طرح بات نہیں کرنا چاہتے تھے جس طرح ان کی بات کو ’’ پینٹ‘‘ کر دیا گیا لہٰذا معاملہ بگڑ گیا اور فوج پریس ریلیز جاری کرنے پر مجبور ہو گئی‘ فوج نے اس پریس ریلیز کے علاوہ مختلف طریقوں اور چینلز کے ذریعے حکومت تک اپنی ناراضی پہنچا دی‘ وزیراعظم نے اپنے خصوصی مشیر ڈاکٹر آصف کرمانی کے ذریعے تمام وزراء‘ ایم این ایز اور سینیٹرز کو حکم جاری کر دیا ’’ آپ فوج کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کریں گے‘‘۔ یہ سارا بحران وزیراعظم کی کچن کابینہ کے دونوں دھڑوں کا پیدا کردہ ہے لیکن نقصان پوری حکومت کو پہنچ رہا ہے۔فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے طالبان سے مذاکرات بھی کھٹائی میں پڑ چکے ہیں‘ طالبان نے حکومتی کمیٹی کو 765لوگوں کی فہرستیں دی تھیں‘ یہ لوگ فوج کی حراست میں ہیں‘ فوج نے حکومت کو یقین دلایا تھا’’ فہرست میں شامل غیر عسکری لوگوں‘بزرگوں‘خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا جائے گا‘‘ حکومتی کمیٹی نے اس یقین دہانی پر طالبان کو گرین سگنل دے دیا لیکن اختلاف کی وجہ سے ان لوگوں کی رہائی کھٹائی میں پڑ گئی اور یوں مذاکرات بھی ڈیڈلاک کی طرف چل پڑے‘ ان حالات میں آصف علی زرداری حکومت کی مدد کے لیے سامنے آگئے ‘ ہم اگر آج آصف علی زرداری کے رویئے کی تعریف نہ کریں تو یہ زیادتی ہو گی‘ زرداری صاحب نے موقعے کا فائدہ اٹھانے کی بجائے جمہوریت کی مدد کی اور یہ ان کی سیاسی میچورٹی ہے‘حکومت یقیناًآصف علی زرداری کی مدد سے موجودہ بحران سے نکل آئے گی لیکن اسے تین قربانیاں دینا پڑیں گی‘ حکومت کو تحفظ پاکستان بل’’ری وائز‘‘کرنا ہو گا ‘ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں اپنا رویہ نرم کرنا پڑے گا اور خواجہ آصف کو سائیڈ لائین کرنا ہو گا‘ ان سے وزارت دفاع کا قلم دان واپس لینا پڑے گا‘ خواجہ آصف کو سفیر بنا کر ملک سے باہر بھی بھجوایا جا سکتا ہے‘ن تینوں قربانیوں سے معاملات سنبھل جائیں گے لیکن یہ سنبھال وقتی ہو گا کیونکہ فوج کیلے کا وہ چھلکا ہے جس پر حکومت دوسری بار پاؤں ضرور رکھے گی‘یہ دھواں آگ ضرور بنے گا‘ میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بدقسمتی سے بحرانوں سے جتنا سیکھنا چاہیے تھا یہ ابھی تک نہیں سیکھ سکے اور یہ اس حکومت کا وہ المیہ ہے جو مستقبل میں بھی گُل کھلاتا رہے گا۔میاں صاحب کی چوتھی کابینہ ان کی فیملی کابینہ ہے‘ یہ کابینہ کیسے کام کرتی ہے‘ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔