امریکہ میں مجھے ایک کمپنی کا ڈائریکٹر ملا وہ پی ایچ ڈی تھا کہنے لگا میں بھی پاکستان گیا ہوں اور میں نے وہاں ایک عجیب بات دیکھی‘ میں نے کہا بتاؤ وہ کونسی؟ کہنے لگا وہاں کے بارے میں دو باتیں کرتا ہوں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہےجس میں کار اور اونٹ ایک ہی سڑک پر چلتے ہیں میں نے کہا واقعی آپ ٹھیک بات کر رہے ہیں وہ کہنے لگا کہ میں ایک دوسری بات بھی کرتا ہوں‘ میں نے کہا وہ کیا کہنے لگا میں نے وہاں غریب لوگوں کو دیکھا ان کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے
تھے ان کے چہروں سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں کھانا بھی ٹھیک نہیں ملتا ان کے پاس نہانے کیلئے چیزیں بھی پوری طرح نہیں ان کے گھر کا معیار اتنا اچھا بھی نہیں لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ ان کے چہروں پر سکون ہوتا تھا‘ کھڑے ہوتے تھے تو بالکل سیدھا کھڑے ہوتے تھے میں جتنے لوگوں سے پوچھتا تھا وہ سب کے سب رات کو میٹھی نیند سوتے تھے‘ کہنے لگا مجھے یہ بتائیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا کہ یہ اسلام کی برکت ہے۔ حافظِ حدیث ایسے بھی تھےعبداللہ بن ابی داؤد ایک مرتبہ اصفہان پہنچے تو وہاں کے علماء نے ایک بڑے محدث کا بیٹا سمجھ کر ان کا استقبال کیا اور پھر کہا کہ ہمیں کچھ احادیث سنا دیجئے چنانچہ محفلیں جاری رہیں اور انہوں نے اپنی یادداشت سے پینتیس ہزار احادیث ان کو سنا دیں۔