الحمدللہ ہمارا شمار بھی اُن شوہروں میں ہوتا ہے جن پر زوجہ ماجدہ کبھی بھروسہ نہیں کرتیں. ہم نے لاکھ لوگوں کو سمجھایا ہے کہ بھائی ہم گھر میں شیر کی طرح رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ گھر والے ہمیں کتا ہی سمجھتے ہیں.
پر اپنے آپ میں تو ہم شیر ہی ہیں نا، کیا ہوا جو سرکس کے ہیں. قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک “خیرخواہ کم دشمن” نے مشورہ دیا کہ میاں سارا دن گھر میں مفت کی روٹیاں توڑتے رہتے ہوتو کیوں نہ کوئی ایسا کام کرو جس سے وقت بھی اچھا کٹ جائے اور گھر میں تھوڑی عزت افزائی بھی ہو جائے کہ چلو لڑکا کچھ تو کرتا ہے. ویسے شادی سے پہلے ہمارے چچا حضور نے اماں سے پوچھا تھا کہ چلو مان لیتے ہیں لڑکا ہمارا دیکھا بھالا ہے، اُوپر سے بڑے بھائی کی آخری نشانی بھی ہے. پر کرتا کیا ہے تو اماں نے فٹ سے جواب دیا بس سارا سارا دن خارش کرتا رہتا ہے اور تو ہم نے اسے کچھ کرتے دیکھا نہیں. اللہ بخشے چچا کو جنہوں نے ہماری اس خوبی پر داد کے ساتھ ساتھ اپنی بہت ساری بیٹیوں میں سے ایک عدد بیٹی بھی دُلہن کی شکل میں عطا کردی. لہٰذا چچا تو شادی کے بعد عدم سدھار گئے مگر اپنے کندھوں کا ” بھاری بھرکم” بوجھ ہمارے کندھوں پر امانتاً شفٹ کر گئے. کبھی کبھی سوچتا ہوں پتا نہیں جنت کے کس دروازے سے مجھے معافی طلب نظروں سے دیکھتے ہوں گے. ہماری چچی کم ساس کبھی کبھی فرمایا کرتی ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ پریشانی اپنی اسی بیٹی کی تھی. خیر سے اُن کی پریشانی بھی میرے ناتواں کندھوں پر آپڑی.
معافی چاہتا ہوں بات دوست سے نکل کر کسی اور طرف نکل گئی اور درمیان میں گھریلو معاملات آگئے، کیا کریں کبھی کبھی انسان کے “سکھ” بھی زبان پر آہی جاتے ہیں. خیر تو میں بات کر رہا تھا کہ ہمارے دوست کم دشمن نے مشورہ دیا کہ گھر میں کچھ طوطے رکھ لو، آخر گھر میں کوئی تو ایسا ہونا چاہیے جو خاموشی سے تمہاری بات بھی سن لے. ہمیں اس نامعقول کا مشورہ کافی معقول لگا اور ہم طوطے ڈھونڈنے نکل پڑے، یہ تو بعد میں پتا چلا کہ یہ کام تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. جس طرح کسی زمانے میں کبوتر باز مشہور ہوا کرتے تھے اور نئے آنے والے ان کے مشوروں سے مستفید ہوا کرتے تھے. اسی طرح آجکل کے دور میں “طوطے باز” مشہور ہیں. آپ ان کے مشوروں کے بغیر طوطے کو کجا پنجرہ تک نہیں رکھ سکتے. تو جناب ہم نے بھی ایک عدد طوطے باز قابو کر لیا. ویسے ہمارے ہاں “باز” لفظ فحاشی کے زمرے میں آتا ہے، پر کیا کریں اس کا متبادل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا. خیر پہلے تو اس “دانشور” نے ہمیں طوطوں کی مختلف اقسام کے بارے میں لمبا سا لیکچر دے مارا. منہ میں پان دبائے یہ حضرت کسی ملنگ کا سا تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے. ویسے ان کے لیکچروں سے لگ ہی رہا تھا کہ موصوف ملنگ ٹائپ کے بندے ہیں پر ماڈرن ملنگ. کیونکہ وہ طوطوں کی قسموں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ٹچ موبائل سے ان کی تصاویر بھی دکھاتے جاتے ہیں. کچھ تصاویر افزائش نسل کے حوالے سے بھی تھیں جن کا یہاں بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی جلسے میں کی گئی کسی لیڈر کی تقریر کو بیان کرنا کہ دونوں سے ہی عوامی جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے. جب وہ تمام معلومات کا خزانہ ہمیں منتقل کر چکے تو فرمایا بچہ سب سے پہلے تو ایک عدد کھڈے “پنجرے” کا بندوبست کرو. ساتھ ساتھ ہمیں یہ نصیحت بھی فرمائی کیونکہ آپ ابھی اس شوق میں نئے نئے وارد ہوئے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ کسی نیم کاریگر سے لکڑی کا پنجرہ ہی بنوا لو جو سستے کے ساتھ ساتھ ہلکا بھی پڑے گا. کیونکہ اگر یہ مصروفیت آپ کی نصف بہتر کو پسند آگئی تو پھر آپ کو لوہے کے پنجرے کا بتائیں گے. پھر ہمیں ایک عدد کاریگر کا بھی پتا بتایا گیا. ہم نے سوچا چلو ابھی فی الحال جا کر ریٹ وغیرہ کا چسکا لیتے ہیں پھر سوچیں گے کیا کرنا ہے. شومئی قسمت ہم جیسے ہی اس “فنکار” کے پاس پہنچے اُس نے ہمیں بتایا کہ میاں ہمارے پاس صرف آج کے آج کا وقت ہے. اگر آپ نے آج پنجرہ نہ بنوایا تو اگلے پورے مہینے تک شب مہورت نہیں ہے. ساتھ ہی فرما دیا کہ ہماری فنکاری کے ایک ہزار ہوں گے، میٹریل آپ چھیمے سے پکڑ لیں، مناسب دام میں دے دے گا، ویسے بھی آپ کی اُس سے کافی یاد اللہ ہے.
گھر واپس آئے، بیگم سے کچھ پیسوں کا تقاضا کیا کہ تجوری کی چابی “بھی” موصوفہ اپنے پلو کے ساتھ باندھے رکھتی ہے. جیسے تیسے کرکے لکڑی کا سامان لایا گیا اور کاریگر کہ جن کی صحت میرے خیال میں کسی باریک لکڑی سے زیادہ نہیں ہوگی. خیر جناب نے جیسے تیسے کر کے ایک عدد پنجرہ بنا دیا. یہ الگ بات ہے کہ پنجرہ کم جیل خانہ جات کا توشہ خانہ زیادہ لگتا تھا. اب مسئلہ یہ تھا کہ طوطے کہاں سے لائے جائیں کیونکہ سن رکھا تھا کافی مہنگے ہیں اور مزید رقم خرچ کرنے کی ہمیں “اجازت” نہیں تھی. اسی شش و پنج میں تھے کہ دُکان پر ایک دوست کم پلمر وارد ہوئے. جب اُن کو اپنی رام کتھا سنائی تو جھٹ سے بولے ارے میاں اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے. ہمارے گھر میں گدھے گھوڑوں کے ساتھ ساتھ کچھ طوطے بھی موجود ہیں جو ہر وقت کائیں کائیں کرتے رہتے ہیں. آپ کو ایک عدد جوڑی عطا کر دی جائے گی. یہ آفر سن کر جیسے ہماری جان میں جان آئی. اگلے دن صاحب نے ایک عدد جوڑی چھوٹے طوطوں کی لا دی. ہم بڑے شوق سے ان کو اپنے گھر لائے اور لا کر جیل نما پنجرے میں قید کر دیا، کہ ہم کون سا آزاد ہیں.
کچھ دن تو ہم نے بڑے شوق سے ان کو پالا. اس کے ساتھ ساتھ کچھ مزید بھی خرید لیے گئے. پھر کیا تھا ہمارا ہر چیز کی طرح ان سے بھی دل اُٹھ گیا. چھت پر جانے کو دل نہیں کرتا تھا. بیٹی سے کہا آپ ان کو دانہ چوگہ ڈال آیا کریں تو بولی پاپا جی ہم پر تو پہلے ہی سکول کے کاموں کا بہت بوجھ رہتا ہے، اُوپر سے آپ ہمیں ایک اور کام بتا رہے ہیں، وہ بھی مستقل بنیادوں پر. بہرحال جیسے تیسے کر کے ہم ان کو دانہ ڈالتے رہے کیونکہ زمانہ طالب علمی میں ہمیں دانہ ڈالنے کا کافی تجربہ تھا. یہ الگ بات ہے کہ ہمارا دانہ چگنے کبھی کوئی حسینہ نہیں آئی.
آجکل دانہ ڈالنے کی ذمہ داری ہماری بیگم کم گوانتا نا مو بے کی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے پر کیا کریں یہ دل ہے کہ مانتا نہیں. جب سے بیگم زندگی میں آئی ہیں مستقل ذمہ داری سے چڑ سی ہو گئی ہے. طوطوں کا کیا ہے جس دن بیگم کو غصہ آیا نکال باہر کریں گی جیسے اکثر ہمارے ساتھ کیا جاتا ہے. بچے بتا رہے تھے اماں گھنٹوں طوطوں سے باتیں کرتی رہتی ہیں. جس طرح ہمیں آج تک بیگم کی کسی بات کی سمجھ نہیں آئی لگتا ہے ایسے ہی طوطوں کو بھی نہیں آتی، اسی لیے موصوفہ اُن کو گھنٹوں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں اور وہ بیچارے ہماری طرح کونے میں دبکے بیٹھے سنتے رہتے ہیں کہ اسی میں بقا ہے.
..