شام کی سڑکوں پر ایک شخص کو آوازیں لگارہا تھا کہ میرا مقدر جہنم ہے


حضرت ابو قلابہؒ کا بیان ہے کہ میں ملک شام کی سرزمین میں تھا تو میں نے ایک شخص کو بار بار یہ صدا لگاتے ہوئے سنا کہ ”ہائے افسوس! میرے لئے جہنم ہے.“میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس شخص کے دونوں ہاتھ اور پاﺅں کٹے ہوئے ہیں اور وہ دونوں آنکھوں سے اندھا ہے اور اپنے چہرے کے بل زمین پر اوندھا پڑا ہوا بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ”ہائے افسوس! میرے لئے جہنم ہے.

“یہ منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ اے شخص! تیرا کیا حال ہے؟ اور کیوں تجھے اپنے جہنمی ہونے کا یقین ہے؟یہ سن کر اس نے کہا ”اے شخص! میرا حال نہ پوچھ، میں ان بدنصیب لوگوں میں سے ہوں، جو امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ کو قتل کرنے کے لئے ان کے مکان میں گھس پڑے تھے. میں جب تلوار لے کر ان کے قریب پہنچا تو ان کی زوجہ محترمہ نے مجھے ڈانٹ کر شور مچانا شروع کردیا تو میں نے ان پر تشدد کیا.روزنامہ امت کے مطابق یہ دیکھ کر امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ نے یہ دعا مانگی کہ ”خدا تعالیٰ تیرے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاﺅں کو کاٹ ڈالے اور تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کردے اور تجھ کو جہنم میں جھونک دے.“اے شخص! میں امیر المومنینؓ کے پرجلال چہرے کو دیکھ کر اور ان کی اس قاہرانہ دعا کو سن کر کانپ اٹھا اور میرے بدن کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوگیا، میں خوف و دہشت سے کانپتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلا. امیر المومنینؓ کی چار دعاﺅں میں سے تین کی زد میں تو آچکا ہوں، تم دیکھ رہے ہو کہ میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاﺅں کٹ چکے اور دونوں آنکھیں اندھی ہوچکیں، اب صرف چوتھی دعا یونی میرا جہنم میں داخل ہونا باقی رہ گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ بھی ہوکررہے گا. چنانچہ اب میں اسی کا انتظار کررہا ہوں اور اپنے جرم کو ابر بار یاد کرکے نادم و شرمسار ہورہا ہوں، اپنے جہنمی ہونے کا اقرار کرتا ہوں. (ازالة الخفاء)
..