دور جہالت کے انسان کی بات کریں تو ایسی ایسی مثالیں سننے کو ملتی ہیں جنہیں پڑھایا نا جائے تو ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس دور کے انسانوں کی عقل کاماتم کرنے کو جی چاہتاہے. دور جہالت کے لوگ اس قدر جاہل اور ظالم تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بدشگنی کی علامت سمجھتے تھے اور انہیں زندہ دفن کر دیتے تھے.
تاریخ میں ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جب یہ سنگ دل اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کررہے ہوتے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے ہوتے تھے.جیسے کہ حضرت عمرؓ اکثر فرماتے تھے کہ دور جہالت کی دو باتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک کو یاد کرتا ہوں تو مسکرانے لگتا ہوں لیکن جیسے ہی مجھے دوسری بات یاد آتی ہے تو میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں حضرت عمرؓ کہتے ہیں دور جہالت میں ٗ میں کھجور کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا تھا جب کھانے کو کچھ نہ ملتا تو اسی بات کو کھا لیتا اور بعد میں دوسرا بت بنالیتا یہ بات یاد آتی ہے تو بے ساختہ ہنس پڑتا ہوں لیکن جس بات پر میری آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ میں دور جہالت میں اپنی ایک بیٹی کو زندہ دفن کررہا تھا تو
وہ میری داڑھی سے گرد صاف کررہی تھی جس پر مجھے اپنی بیٹی پر بڑا پیار آیا لیکن اس کے باوجود میں نے اس کو دفن کر دیا. ہمارے پیارے نبیﷺ نے دین اسلام کی تبلیغ کے دوران دور جہالت کی تمام رسومات کو ترک کیا اور بیٹیوں کو اعلیٰ اور ارفع مقام عطا کیا جس کی مثال اس سے قبل کہیں نہیں ملتی تھی. ہمارے پیارے نبیﷺ نے غیر اسلامی رسومات کو ترک کر کے مسلمانوں کو نئے سرے سے زندگی گزارنے کے طریقے سیکھائے اور اپنی زندگی لوگوں کیلئے وقف کرنے کا درس دیا لیکن آج کے اس برق رفتاردور میں انسان نے ایک بار پھر دور جہالت کی یاد تازہ کروا دی ہے. انسان اس قدر توہم پرستی کا شکار ہو چکا ہے کہ اس نے تمام تر غیر شرعی عادات اپنے اندر سمولی ہیں اور اس سے باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہا. کسی خاص درخت کو چھونے سے لے کر سیڑھی کے گرد گھومنے تک تقریباً ہر فرد کوئی نہ کوئی تو ہم پرستانہ عادت ضرور رکھتا ہے. اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ عادت خوش بختی لائے اور بدبختی بھگائے گی. دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر عادات عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہوتی ہیں . پھر ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ ایسی ہی خوشی و مسرت کا سامان مہیا کریں. ایسی کچھ مثالیں زیر غور ہیں جنہیں عام انسانوں کے ساتھ ساتھ کامیا ب اور پڑھے لکھے لوگوں نے بھی اپنے اوپر لازم اور ملزوم کر لیا ہے اور نہوں نے اس کو حقیقت کا روپ دے دیاہے. یوہان گرایف ہالیڈ کا مشہور فٹ بالر رہا ہے یہ 1984ء میں ریٹائرڈ ہوا1999ء میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف فٹ بال نے اسے بیسویں صدی کا بہترین یورپی فٹ بالر قرار دیا جبکہ عالمی سطح پر وہ پہلے کے بعد دوسرے نمبر پر آیا. کرایف کی عادت تھی کہ ہر میچ شروع ہونے سے قبل وہ اپنے گول کیپر کے شکم پر طمانچہ رسید کرتا دراصل کرایف اس توہم کا شکار تھا کہ یوں دلندیزی ٹیم میچ جیت جائے گی. ٹینس کی مشہور امریکی کھلاڑی سیرینا ولیمز پہلی سرونگ کے وقت پانچ بارزمین پر گیند مارتی ہیں. اسے یقین ہے کہ یوں خوش قسمتی کی دیوی اس پر مہربان ہوجاتی ہے. کوے کا بولنا بہت مشہور ہے کہ کوا بولے تو مہمان آتا ہے لیکن اس میں رتی بھر بھی سچائی نہیں یہ تمام صورتیں دور جاہلیت میں توہم پرستی کی بنیاد پر لوگوں میں پائی جاتی تھیں اور اسلام نے انہیں باطل قرار دے کر ان کی بیخ کنی فرما دی تھی وہ آہستہ آہستہ پھر مسلمانوں میں لوٹ آئی ہیں. اگر چہ اس کی بعض شکلیں قدرے مختلف ہیں لیکن اصل کے اعتبار سے بدشگونی کی جدید و قدم صورتوں میں قدرے اشتراک بہرحال موجود ہے جیسا کہ اکثر لوگ گھر کی منڈیر (دیوار) پر کوے کے بولنے سے کسی مہمان کا شگون لیتے ہیں کوے کا کائیں کائیں کرنا بھی مسافر آنے کا شگون خیال کیا جاتا ہے . بعض علاقوں میں کوا اگر گھر کی دیوار پر یا چھت پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرے تو اسے مسافر کے آنے کا شگون سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے لئے جگہ کی کوئی پابندی نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کوا کسی کے گھر کے اوپر اڑتا ہوا کائیں کائیں کرے تب بھی اس گھر کے لوگوں کو پیشن ہو جاتا ہے کہ آج ان کا کوئی مسافر واپس آنے والا ہے. کبوتر کو منحو س سمجھنا کبوتر کو گھر میں رکھنا منحوس سمجھا جاتا ہے اور اسے لڑائی ڈلوانے اور روزی میں کمی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے. جبکہ اکثر لوگ کبوتر کے شکار حلال کرنے یا گھر میں پالنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے کبوتر کو متبرک سمجھا اور اس کی بددعا کو نقصان دہ سمجھا جاتا ہے. شام کو مرغ کا اذان دینا شام کے وقت اگر مرغ اذان دیتا ہے تو اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے. مرغی کا اذان دینا اگر مرغی اذان دے تو اسے بہت ہی منحوس خیال کیا جاتا ہے اور اسے فوراً ذبح کر نے کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگرمرغی کو ذبح نہ کیاگیا تو ضرور کچھ برا ہو جائے گا. الو کو منحوس سمجھنا بعض ترقی یافتہ ممالک میں الو کو بہت ہی عزت و تکریم حاصل ہے اور اسے ایک عقلمند پرندہ سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہے. پاکستان میں الو کے بولنے کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اس لئے الو کو بھگانے کی فوری کوشش کی جاتی ہے. صدقہ اور ہماری توہم پرستی صدقہ دیتے وقت اکثر خصوصاً خواتین بڑی افراط و تفریط اور توہم پرستی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اس قسم کی لایعنی باتیں گھڑ لی جاتی ہیں کہ صدقہ ہفتے یا منگل کے دن دیا جائے دوپہر 12بجے دیا جائے لازماً کالی مرغی یا کالا بکرا اور اسے رات کو اس کے سرہانے باندھ دیا جائے جس کا صدقہ دے رہے ہیں یا گوشت وغیرہ ہو تو اسے پہلے جس کا صدقہ دے رہے ہیں اس پر سے سات بار یا اکیس بار اتارا جائے . اجناس میں سے کوئی چیز صدقہ دی جارہی ہو تو رات کو مریض کے سرہانے رکھا جائے پھر یہ صدقہ کس کو دیا جائے؟ تو ان توہم پرستوں کے پاس اس کا جواب اور مصرف یہ ہے کہ صدقے کا گوشت دوپہر12بجے اتارکر چیل کوؤں کو کھلا دیا جائے ٗ شام کو دونوں وقت ملتے مرغی کا انڈا اتار کر تین راستوں پر رکھ دیا جائے آٹے کی گولیاں بنا کر سمندر کی مچھلیوں کو کھلائی جائیں یہ اور ایسی کتنی ہی جاہلانہ اور غیر شرعی باتیں صدقہ کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں رائج ہیں بعض لوگ صدقہ میں گوشت وغیرہ چیلوں کو دینا ضرور ی سمجھتے ہیں یہ بھی غلط ہے . شرع نے صدقہ کا مصرف مقرر کر دیا ہے چنانچہ مسلمان مساکین اس کا بہترین مصرف ہیں چیل اس کا مصر ف نہیں. سورج گرہن چاند گرہن حاملہ عورت جن دن سورج گرہن یا چاند گرہن لگتا ہے حاملہ عورت کو بہت احتیاط برتنا پڑی ہے وہ کسی لوہے کی چیز کو ہاتھ نہیں لگا سکتی. روشنی میں نہیں جا سکتی ٗ باہرنہیں نکل سکتی اور کچھ مخصوص چیزیں بھی نہیں کھا سکتی. پاکستان میں یہ تو ہم بھی بہت عام ہے کہ سورج گرہن کے دوران یا چاند گرہن کے دوران عورت اگر کچا کھالے یا کچھ مخصوص چیزیں اپنے بدن کے قریب لے کر آئے تو اس کے بچے کے اعضا کٹ جائیں گے. حضرت محمدﷺ کے بیٹے کی وفات بعض لوگ سورج گرہن کو حضورﷺ کے بیٹے کی وفات سے منسوب کرتے ہیں اور اپنے یقین کو اور پختہ بناتے ہیں کہ جس دن سورج گرہن لگے گا ضرور برا دن ہو گا. زچہ کو نحس اور منحوس سمجھنا زچہ کو بالکل نحس اور چھوت سمجھنا اور اس سے الگ بیٹھنا اس کا جوٹھا کھا لینا تو کیا معنی جس برتن کو چھو لے اس میں بے دھوئے مانجھے پانی نہ پینا غرضیکہ بالکل بھنگن کی طرح سمجھنا یہ محض لغو اور بیہودہ ہے. یہ بھی ہے کہ پاک ہونے تک یا کم از کم چھٹی نہانے تک زچہ کے شوہر اس کے پاس نہیں آنے دیتیں بلکہ اس کوعیب اللہ نہایت برا سمجھتی ہیں. نذرونیاز کے بارے میں توہمات نذرونیاز نہ دلانے پر لوگ یہ شگون لیتے ہیں کہ اگر وہ نذرنہ دیں گے تو ان کے جانور مر جائیں گے یا کوئی مصیبت ان کو آ پہنچے گی کوئی گھر میں نقصان ہو جائے گا. رزق کم ہونا ایک یہ بھی شگون لیا جاتا ہے کہ اگر نیاز نہ دلائی گئی تو اللہ تعالیٰ ان کا رزق کم کر دے گا. اس لئے لوگ رزق کی کمی سے بچنے کے لئے نیا زدلوانا خود پر فرض سمجھتے ہیں. نذرونیاز اور
بزرگوں کی شرینی کچھ لوگ نذر و نیاز صرف اس لئے دلاتے ہیں کہ انہیں ہر سال بزرگوں کی شرینی دینی پڑتی ہے. جس طرح وہ زکوٰۃ دینا فرض سمجھتے ہیں اسی طرح بزرگوں کی شیرینی ان کے لئے بہت اہمیت ک یحامل ہے کوئی یہ کہے کہ اگر اس نے گیارہویں شریف کادودھ نہ دیا تو اس کی وجہ سے بھینس یا گائے مرجائے گی یا وہ بیمار ہو جائے گی یا رزق کم ہو جائے گا اولاد کی موت واقع ہو جاء یگی ٗ گھر میں نقصان ہو جائے گا اسی طرح کاروبار اور کھیتی باڑی میں بزرگوں کاحصہ یعنی زکوٰۃ اور عشر شرعی وغیرہ سے الگ بزرگوں کی سالانہ شیرینی جو عوام میں مروج ہے شرعاً دینا تو جائز ہے مگر نہ دینے پر توہم پرستی کو فروغ دینا جائز نہیں. یہ تمام باتیں بوجہ جہالت فروغ پاتی ہیں اور پھر لوگ ان کے ہاتھ نفع و نقصان کا عقیدہ وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ شرک فی العبادات ہے لہٰذا ان امور سے بچنا چاہئے. بعض لوگ حسد کی روک تھام ٗ نقصان سے بچنے اور نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے مصنوعی ہتھیلی ٗ جوتا ٗ گھوڑے کا پاؤں ٗ کانٹے دار جھاڑی کو اپنے گھر کے دروازے پر لگالیتے ہیں. بدامنی ٗ گھریلو تشدد ٗناچاقی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے باعث21ویں صدی میں بھی ملک کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سمیت عورتوں کی بڑی تعداد توہم پرستی کا شکار ہے. گھریلو جھگڑوں سے نجات ٗ شوہر کو راہ راست پر لانے ٗ مقدمہ بازی ٗ کاروباری بندش ٗ اولاد کے حصول ٗ بیرون ملک رہائش و دیگر مقاصد کے حصول کیلئے جادو ٹونوں کا سہارا لینا شروع کر دیا. گلی گلی میں پھیلے عاملوں اور نجومیوں کے دعوے ٗ اشتہاری مہم ٗ وال چاکنگ ٗ پمفلٹ اور اشتہارات کی بھر مار سے متاثر ہو کر مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی مختلف طبقات کی تعلیم یافتہ ٗ ان پڑھ ہر عمر کی مایوس خواتین انہیں اپنے مسائل کا ’’ واحدحل‘‘ سمجھنے لگی ہیں جبکہ بعض طالبات نے بھی امتحان میں کامیابی اور پسند کی شادی کیلئے ان سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے. ’’ عاملین‘‘ چٹکی بجاتے میں حل کرنے کاجھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹور رہے ہیں اور سادہ لوح مایوس خواتنی ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر مسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت گنوانے جیسے مسائل کا بھی شکار ہو رہی ہیں.
..