جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے


زلیخا نے یوسف کے عشق میں مجبور ہو کر یوسف کا دامن پکڑ لیا اور اپنی خواہش کا اظہار اس قدر شدت سے کیا کہ آپ لرز اٹھے. زلیخا کے پاس سنگ مرمر کا بت کا جس کی وہ صبح و شام پوجا کرتی.

اس کی آرتی اتارتی. دریائے نیل کی سطح پر تیرتے ہوئے کنول کے پھول اس کے چرنوں میں رکھتی،عطر چھڑکتی لیکن جونہی اس نے حضرت یوسف کا دامن پکڑا تو بت کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا. مقصد یہ تھا کہ اس کا معبود اسے اس حالت میں نہ دیکھ سکے. وہ بت سے حضرت یوسف کے ساتھ دست درازی کی چھپانا چاہتی تھی.اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف بہت رنجیدہ ہوئے. سر پکڑ کر رہ گئے.زلیخا جذبات کی رو میں بے اختیار آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی. “اتنے سنگدل نہلگی.”اتنے سنگدل نہ بنو، وقت اچھا ہے، اسے ضائع نہ کرو. میری دلی مراد پوری کرو.”حضرت یوسف رو پڑے اور فرمایا.”اے ظالم! مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ. تجھے اس بت سے تو شرم آتی ہے جسے تو نے کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے اور مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے.”.حاصل کلام؛خدا سمیع و بصیر ہے. لاکھ پردوں کے پیچھے گناہ کیا جائے اس سے پوشیدہ نہیں. اس لیے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہیے.حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺ نے چقندر کھانے کا حکم کیوں دیا تھا؟دور حاضر میں قبض ،ہیپاٹائٹس،ڈپریشن اور کینسر ایسے امراض کا علاج کرنا ہو تو قدرت الٰہی سے یہ خصوصیات ہمیں چقندر میں مل جائیں گی جو معالجہ کی زبردست قوت رکھتی ہے.

چقندر میں مینگانیز اور بیٹین کثیر تعداد میں موجود ہوتا ہے جس سے اعصابی نظام کا فعل درست ہوجاتا ہے.چقندر کو لال رنگ دینے والے اجزاء بیٹالین اور ویٹامن سی قوت مدافعت میں اضافہ کرتے اور بیماریوں سے بچنے میں کردار ادا کرتے ہیں. تحقیق کے مطابق یہ کینسر سیلز کو جنم لینے سے بھی روکتے ہیں.چقندر ایک معروف سبزی ہے جسے عربی میں سلق اور انگریزی میں Beetrootکہا جاتا ہے.اللہ کے رسول ﷺ نے چقندر کو صحت کے انتہائی مفید قرار دیا اور صحابہ اکرام ؓ کے طبی فوائد کی بنا پر اسکو شوق سے کھاتے . ترمذی میں حضرت ام منذرؓکے حوالے سے ایک حدیث ہے ایک بار رسول اللہﷺ حضرت ام منذرؓ کے گھر تشریف لے گئے. حضرت علیؓ آپﷺ کے ہمراہ تھے. اس وقت گھر میں کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے. سرکار دوعالم ﷺ نے ان کھجوروں میں سے تناول فرمایا تو حضرت علیؓ بھی کھانے لگے اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا ”اے علی!تم کمزور ہو اس لئے تم نہ کھاؤ“. ام منذرؓ چقندر کھانے لگیں تو آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اس میں سے کھاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے مفید ہیں. محدثین بتاتے ہیں کہ ان دنوں حضرت علیؓ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور دکھتی آنکھوں پر کھجور کھانا مضر ہے. اس لئے آپﷺ نے حضرت علیؓ کو منع فرمایا اور جب آپﷺ کے سامنے چقندر پیش کئے گئے تو آپﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ کھاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے مفید ہیں اور تمہاری ناطاقتی کو یہ دور کر دے گا. اس حدیث کی روشنی میں دوباتیں معلوم ہوتی ہیں کہ پرہیز کرنا سنت ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ چقندر کھانے سے کمزوری دور ہوتی ہے.بخاری شریف میں بھی چقندر کا ذکر ملتا ہے.

قتیبہ بن سعید، یعقوب، ابوحازم ، سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں” ہم لوگوں کو جمعہ کے دن آنے کی بہت خوشی ہوتی تھی، اس لئے کہ ایک بڑھیا تھی جو چقندر کی جڑیں جنہیں ہم اپنی کیاریوں میں لگاتے تھےاس کو اکھیڑ کر اپنی دیگ میں ڈالتی تھی، اور اس میں جو کے کچھ دانے بھی ڈال دیتی تھی، میں یہی جانتا ہوں کہ اس میں چکنائی یا چربی نہیں ہوتی تھی، جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ لیتے، تو اس بڑھیا کے پاس آتے. وہ ہم لوگوں کے پاس وہی چقندر لا کر رکھ دیتی تھی، جمعہ کے دن کی خوشی ہمیں اسی سبب سے ہوتی تھی،اور ہم لوگ جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے“ اطبا کہتے ہیں کہ چقندرکھانا ہضم کرتی اور رعشہ کیلئے مفید اور بلغم خارج کرتی ہے.چقندر کا مزاج پہلے درجہ میں گرم خشک ہے . یہ مواد تحلیل کرتی اور سدے کھولتی ہے .چقندر کی چار معروف اقسام ہیں ،ان میں سے سفید چقندر کا پانی جگر کی بیماریوں میں اچھے اثرات رکھتا ہے. چقندر کے قتلوں کو پانی میں ابال کر اس پانی کی ایک پیالی صبح ناشتا سے ایک گھنٹہ پہلے پی لی جائے تو پرانی قبض بھی ختم ہوجاتی اور بواسیر کی شدت بھی بتدریج کم ہوجاتی ہے :

..