طوائف اور رنڈی کا فرق اور پرانی دہلی کے کوٹھے!


پرانے دہلی کے چوڑی بازار میں موجود مسجد مبارک بیگم کا نام اصل میں دہلی کے پہلے برطانوی شہری David Ochterlonyکی بیوی کے نام پر رکھا گیا تھا. مبارک بیگم ایک ناچنے والی تھیں اور اُن کے بیک گراؤنڈ ہی کی وجہ سے اُنیسویں صدی کی اس مسجد کانام ’’ رنڈی کی مسجد‘‘ پڑ گیا.

حالانکہ مسجد کے نگران نے بہت کوشش کی کہ لوگ مسجد کا اصل نام لیں اور اسی لیے اُس نے مسجد کانام پڑے بڑے حروف میں مسجد کے دروازے پہ لکھوایا بھی ، لیکن لوگ مسجد کو اُس کے اصلی نام سے نہیں بلاتے.
مسجد کا ایک پتھروں کا راستہ دہلی کے چوڑی بازار میٹرو سٹیشن کو لگتا ہے. یہاں پر لگی بوسیدہ گرے ٹائلز ہمیں مغل دور کی یاد دلاتی ہیں. کون کہتا ہے کہ وقت نہیں گزرا؟
میٹرو سٹیشن کا داخلی راستہ اصل میں کئی راستوں کو جوڑتا ہے. انہی راستوں میں تاریخی محقق Gaurav Sharma نے بھی پرانے دہلی پر ایک تحقیق کی جو کہ اُن کی ڈیجیٹل ٹوور کمپنی کا حصّہ تھی.پچھلے مہینے ہی اُنہوں نے دو گروپوں کو دو مختلف راستوں پر بھیجا ، جن میں سے ایک نے چوڑی بازار کی پرانی طوائفوں اور ایک نے Garstin Bastion روڈ کی آج کی طوائفوں پر تحقیق کی.
طوائف کو ہمیشہ ہی پر اسرار اور پُر کشش تصور کیا جاتا ہے.1970میں ایک تاریخ دان وینا تلوار نے اپنی تحقیق کے لیے ایک خود کو لکھنؤ کی طوائفوں کے ایک گروپ کا حصّہ بنایا. جن طوائفوں سے اُن کی ملاقات ہوئی وہ آزاد خیال، امیر اور پڑھی لکھی تھیں اور اُن کے سر پرستوں میں کئی امراء اور اعلیٰ حکومتی ارکان شامل تھے.اِن کے سب سے قریبی اور گہرے رومانوی تعلقات آپس میں ہوتے تھے جن کو وہ اپنی زبان میں ’’ چپت بازی‘‘ کہتی تھیں.
آج کے لکھنؤ یا دہلی میں ہمیں وہ کوٹھے نظر نہیں آتے جن کے بارے میں وینا تلوار نے بات کی ہے.اُنہوں نے اب یہ جائیدادیں چھوڑ دی ہیں. اب یہاں نا وہ رومانوی عطر کی دوکانیں ہیں جو اُن طوائفوں کے زیرِ استعمال عطر بیچتی تھیں اور نا وہ حویلیاں ہیں جہاں وہ رہتی تھیں.
ہماری تحقیق میں ہمیں چوڑی بازار کے اند موجود جامہ مسجد تک لے گئی.پرانے وقتوں میں ان گلیوں کو بازارِ حسن کہا جاتا تھا. اب یہاں صرف اُکھڑی ٹائلیں اور شادی کارڈز کی دوکانیں ہیں.
ایسا ہمیشہ سے ہی تھا کہ ان علاقوں میں نیچے دوکانیں ہوتی تھیں اور اوپر کے حصّے میں حسن کی محفلیں سجتی تھیں. شرما صاحب نے اپنی تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے گلی کے مختلف حصّے مختلف اقسام کی عورتوں کو دئیے جاتے تھے.یہاں جنسی تعلقات اور ناچ گانے کے ساتھ ساتھ تہذیب سکھانے کا کا م بھی کیا جاتاتھا.اب زیادہ تر بالکونیاں یا محرابیں تو ختم ہو گئی ہیں لیکن کچھ کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں.
تصویر مین لچھمن داس اینڈ کو کی دوکان کو اوپر موجود بالکونی اُس زمانے کی کچھ نشانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوے ہے. چار چھوٹی یا تنگ محرابوں کے بیچ میں ایک چوڑی محراب موجود ہے. اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شائد یہی وہ جگہ ہے جہاں طوائفیں کھڑی ہو کر اپنے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہونگی.مایانک آسٹن صوفی نے بھی اپنی کتاب Nobody Can Love You More: Life in Delhi146s Red Light District میں ابھی ایسی ہی محرابوں کا تذکرہ کیا ہے. مایانک نے 1960کے ایک جرنلسٹ ووین سمتھ کا انٹرویو کیا جنہوں نے طوائفوں کی چار اقسام کے بارے میں بتایا. ان میں ڈومنی، بیدنی، طوائف اور رنڈی شامل ہیں. رنڈی کا رتبہ سب سے اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے جس کے امراء کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں اور وہ امراء کے بچوں کو مجلسی آداب بھی سکھاتی ہے.سمتھ صاحب کا کہنا تھا کہ جب ایک رنڈی دریا گنج میں پالکی میں سوار ہو کر نکلتی تھیں تو لوگ اپنا کام چھوڑ کر اُس کو تکتے تھے.طوائفوں کو اُن کی دولت، رتبے اور انفرادی انداز کی وجہ سے مشہور اور نامور تصور کیا جاتا تھا.جن طوائفوں سے تلوار ملتی تھیں وہ عوام میں اپنی پہچان چھپانے کے لیے پرقع پہنتی تھیں. اُن کا ماننا تھا کہ ہم آدمی کو تب تک کچھ نہیں دکھاتے جب تک ہمیں اُس کی قیمت نا مل جائے.

اُنیسویں صدی میں مغل درباری اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ بھی ان طوائفوں کے گاہک ہوتے تھے.اپنی کتاب ’’دا لاسٹ مغل‘‘ میں William Dalrymple نے ایک ایسی طوائف کا ذکر کیا ہے جو سوشل پارٹیز میں برہنہ شرکت کرتی تھی. اُس نے اپنے جسم پر ایسے بیل بوٹے بنائے ہوتے تھے جو کپڑوں کا یا زیور کا تاثر دیتے تھے.
چوڑی بازار سے ہو کر، اجمیری دروازے کے پار نکلیں تو وہ نئے دہلی کا آج کا ریڈ لاٗٹ ایریا ہے جو جی بی روڈ پر واقع ہے.مغل شاہجہان آباد تو1857کی جنگِ آزادی ے بعد ہی ختم ہو گیا تھا.مرزا غالب نے اپنی آنکھوں سے حکومتوں کے ادل بدل اور پرانی دہلی کے امراء کو غریب ہوتے دیکھا تھا.اسی طرح طوائفوں کو بھی نئی جگہ دی گئی .جب ہم جی بی روڈ پر جا رہے تھے تو ہمارے گروپ کو دو دفعہ پولیس نے روکا. اُن کا کہنا تھا کہ یہ جگہ عورتوں کے لیے محفوظ نہیں.
جی بی روڈ پر کوٹھے موجود ہیں جہان ناچنے گانے کا کام ہوتا ہے. کچھ سال پہلے تک مایا دیوی جیسی بڑی طوائف جنہوں نے اچھن مہاراج سے کتھک اورکِرانہ گھرانے سے رقص کرنا سیکھا تھا، وہ بھی جی بی روڈ پر ہی رہتی تھی.1983میں بننے والے ایک برطانوی دیکو ڈرامہ میں اُنہوں نے پون پال نامی بمبئی کا ایک ایسا بڑا کمرہ دکھایا جس کی زمین پر بڑا سا ترازہ بنا تھا اور جہاں طوائفیں رہتی تھیں اور رقص سیکھتی تھیں . لیکن ہمیں جی بی روڈ پر کو ئی پون پال جیسا کمرہ نہیں ملا.
پاکیزہ اور امراؤ جان جیسی فلمیں ہمیں آج یہ بتاتی ہیں کہ اُن وقتوں کی طوائفیں یا اُن کا رہن سہن کیسا تھا.اگر ہم 1983کے مایا دیوی کے ایک انٹرویو پر نظر ڈالیں تو اُن کا اپنے انٹرویو لینے والے سے کہنا تھا کہ ’’ تمھارے بچے کبھی بھی اصل طوائف نہیں دیکھیں گے، اُن کو ان امراؤ جان جیسی احمقانہ فلموں سے ہی کام چلانا پڑے گا‘‘.

..