سن 410 ہجری میں جب سلطان محمود غزنوی کی وفات ہوئی تو اس وقت وہ دنیا کا سب سے بہادر مشہور و مقبول مسلمان بادشاہ تھا ۔ سلطان محمود غزنوی نے 33 سال افغانستان پر حکومت کی ۔
1974 میں افغانستان کے شہر غزنوی میں زلزلہ آیا تو تباہی کی وجہ سے سلطان محمود غزنوی کی قبر بھی متاثر ہوئی ۔ اور قبر کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی ضرورت پیش آگئی ۔اس وقت افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت تھی جس نے سلطان محمود کی قبر کشائی کرکے دوبارہ دفن کرنے اور از سر نو قبر بنانے کا حکم دیا ۔
جب اس مقصد کے لیے قبر کو کھولا گیا تو وہاں موجود لوگ سارا منظر دیکھ کر چکرا گئے۔سلطان محمود غزنوی کے انتقال کو لگ بھگ 1000 سال گزر چکے تھے لیکن قبر میں سلطان کا تابوت اور اسکی لکڑی بالکل درست حالت میں موجود تھی۔ اور اسے معمولی سی دیمک نہیں لگی تھی نہ ہی تابوت کی لکڑی کے کسی حصے کو کسی قسم کا اور نقصان پہنچا تھا ۔یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ جب تابوت کو کھولنے کا حکم دیا گیا تو تابوت کھولنے والے یہ دیکھ کر غش کھا گئے کہ سلطان محمود غزنوی کا جسد ایسی حالت میں موجود تھا جیسے اسے آج ہی دفن کیا گیا ہو ۔
سلطان کا سیدھا ہاتھ اسکے سینے پر رکھا تھا اور بایاں ہاتھ جسم کے متوازی رکھا ہوا تھا ۔ جسم اور ہاتھ اس طرح نرم ومحفوظ حالت میں تھے جیسے سلطان محمود کو وفات پائے چند لمحے گزرے ہوںیہ دراصل اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس بات کا انعام تھا کہ جو لوگ اللہ اور اسکے نبی کے احکامات کی فرمانبرداری کریں اور احکام الٰہی کو ہر دوسری چیز پر مقدم سمجھیں تو اللہ تعالیٰ ان پر خاص عنایت کرتا ہے ۔جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے مخلوق خدا کی بہتری بھلائی کے لیے سرگرم رہے اسے اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد بھی فنا نہیں ہونے دیتا ۔