غریبی


ایک شخص واقعہ سناتا ہے کہ میں جب چھوٹا تھا تو میرے ماموں اپنے بچوں کے لیے روز کئی فروٹس لاتے میں ان کو کھاتے ہوئے تو نہیں دیکھتا تھا لیکن جانتا تھا کہ وہ فروٹس لذیذ ہونگے اگر کبھی مہینے میں ایک آدھ بار ہمارے گھر میں آم آ جاتے تو وہ دن خوشی کا دن ہوتا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ فروٹس کا شوق مرتا گیا ، زیادہ کھانے سے نہیں نا کھانے کی وجہ سے،انسان جب کسی چیز کے لیے ترستا ہے تو یا تو وہ اس کو پا لینے کی اتنی کوشش کرتا ہے کہ اپنی

زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے یا پھر وہ خواہش اس کے دل کے اندر ہی دم توڑ دیتی ہے، میں سکول کا ایک ہونہار طالب علم تھا، سالانہ امتحان کے بعد جب مجھے انعام سے نوازا جاتا تو میں کبھی خوش نہیں ہو پاتا تھا، پتہ ہے کیوں؟ کیوں کہ میرے جوتے ٹوٹے ہوتے تھے، میرے کپڑے پیوند زدہ ہوتے یا پھر اتنے پرانے کہ دیکھ کر ہی محسوس ہوتا کہ بہت پرانے ہیں، ایسے میں آٹھ نو سو طلباء کے مجمعے میں انعام لینا وہ بھی ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ بڑا عجیب لگتا تھا ، وقت ایسے ہی گزرتا رہا ، ہر سال اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن لیتا لیکن فنکشن میں جانے سے کتراتا، ایک بڑی محرومی ہمیشہ یہ بھی رہی کہ میرے ابو کبھی اس فنکشن میں نہیں ہوتے تھے، دوسری پوزیشن لینے والا لڑکا جب اپنا انعام لے کر اپنے باپ کے پاس جاتا تھا تو میری نظریں ہمیشہ اس پر ہوتی تھیں ، ایک عجیب احساس تھا جس سے میں ساری زندگی محروم رہا، زندگی کی اور کئی محرومیاں رہیں، جن سے دل سے خواہشات آہستہ آہستہ رخصت ہو گئیں، اب دل میں اپنی ذات کے لیے کوئی خواہش نہیں رہی، اور میں جانتا ہوں میرے جیسے ہزاروں ہونگے جن کی زندگی میری زندگی جیسی رہی اور شائد ہمیشہ محرومیاں ان کا مقدر رہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی کسی کا دکھ نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ خود اس دکھ کی کیفیت کو نہ پہنچا ہو اور جس دکھ کے ساتھ جس محرومی کے ساتھ میں نے زندگی گزاری اس کا احساس مجھے ہمیشہ ہوتا ہے،جب کسی غریب کے بچے کو ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا آپ نظر آتا ہے لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو بے حس ہو جائیں، میں بے حس نہیں ہوا، سارے احساس سارے جذبات ہمیشہ میرے ساتھ رہے، اور ان احساسات کا تقاضہ یہ تھا کہ میں کسی ایک چہرے پر بھی مسکراہٹ لا سکوں تو وہ میری محرومیوں کی تکمیل ہو گی، میں نے اپنے تئیں جو بھی کیا وہ میرا اپنا معاملہ رہا ہے ہمیشہ سے، لیکن پچھلے سال رمضان میں کچھ غریب خاندان کے بچوں کو عید کی شاپنگ کروائی، اور یہ کرنِ سحر کا پہلا آفیشل پراجیکٹ تھا، اب اس سال پھر کوشش ہے کہ کم از کم ایک ہزار بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر سکوں۔