تھوڑی دیر میں ٹرین آنے والی تھی. وقت بدلا تھا نہ اس کے حالات.
گھر پر دو بچے بھوک سے بے تاب ہو کر اس کا انتظار کر رہے تھے. غربت کے ہاتھوں تنگ آکر وہ شہر چھوڑ کر قریبی بستی میں آگیا تھا، جہاں ہر طرف غربت ہی غربت نظر آتی تھی. اس کے دو بچے، صبح سے سڑکوں اور خدا کی زمیں پر روتے ہوئے کھانے کی تلاش کر رہے تھے. غریبوں کی بستی کے کوڑے دان بھی ان کے گھروں کی طرح خالی ہی ہوتے ہیں.ان کوڑوں میں انسانوں کی لاشیں تو مل سکتی ہیں مگر روٹی نہیں. مسلسل دو دنوں سے بھوکے بچے اس کی راہ میں نگاہیں بچھائے بے تابی سے انتظار کر رہے تھے. ننھا شان کچھ زیادہ تنگ کرتا تو چھوٹی سی صبا اسے ڈانٹ دیتی. کہا ہے نا! ابو جی آئیں گے تو ڈھیر سارا کھانا لائیں گے. شان کی آنکھوں میں ایک دم رونق سی آجاتی.
شچی آپا. ابو لائین دے. ہاں شان. وہ اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہہ رہی تھی. وہ محلے کی دوکان پر گیا. گھروں میں صدائیں دیں. مگر سب نے منگتا، چرسیا اور بے غیرت جیسے القابات سے ہی نوازا. خالی ہاتھ جیسے ہی وہ گھر پہنچا ننھے بچے اس کی گود کی طرف لپکے. پیٹ بھوک سے سوکھے اور آنکھوں میں روٹی کے آنے کی خوشی. لیکن اس کے خالی ہاتھ دیکھے تو صبا ایک دم اداس ہوگئی، ابو آج بھی آپ کھانے کو کچھ نہیں لائے. ان سب باتوں کا جواب اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو تھے. نہیں میرے بچو! اس سسٹم نے مجھے بس دھکے دیے اور کچھ گالیاں دیں. میرے بچو! اس نے جیسے ہی بچوں کے پیٹ کو ہاتھ لگایا تو ششدر رہ گیا. کئی دن کے بھوکے اور دو دن سے مسلسل روٹی سے محروم بچوں کے پیٹ ہی نظر نہیں آرہے تھے. وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. ابو لوئیں مت. ننھے شان نے آگے بڑھ کر ننھے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کیے. ابو مجھے بہت بھوک لگی ہے. ننھی صبا نے تڑپتے ہوئے کہا. تو چھوٹے سے شان کو بھی نجانے کیا سوجھی کہ وہ بھی صبا کا ہم نوا ہو کر رونے لگا.ابو مدے بھی تھانا دو. چھوٹا سا بچہ جو بول بھی نہیں پاتا تھا مسلسل روئے جا رہا تھا. اس رات بھی وہ بغیر کھانا سوئے. ساری رات دونوں بچے خواب میں کبھی روٹی کا نام لے کر ہنستے اور کبھی روتے. جانے کتنی دیر بعد بچے سوئے وہ نہیں جانتا تھا لیکن وہ انسان پتھر کا ہو چکا تھا. آج بھی روز کی طرح صبح ہوئی تھی. سورج اسی آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا. دونوں بچے انتہا درجے تک لاغر ہو چکے تھے. روتے روتے اس کی آنکھوں کے آنسو خشک ہوگئے، اس نے دونوں بچوں کو کندھے پر اٹھایا اور قریبی ہسپتال لے گیا.لیکن ڈاکٹرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسی نے معصوم پھولوں کی طرف رخ تک نہیں کیا. یہ قصبے کا ایک چھوٹا سا ہسپتال تھا. ووٹ لیتے وقت کونسلر اور چیئرمین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ علاقے میں ایک بڑا ہسپتال اور سکول بنوا دیں گے مگر جب سے جیتے دونوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا. غریب لوگوں کی بستی تھی. اکثر لوگ کہتے تھے. یہ غریب آٹے کے ایک تھیلے پر بک جاتے ہیں. جس کے گھر میں موت رقص کر رہی ہو، اس کے لیے آٹے کا ایک تھیلہ ہی زندگی کی نوید بن کر آتا ہے.جب غریب کے بچے بھوک سے مر رہے ہوں، بیمار ہوں اور علاقے میں ایک ہسپتال تک نہ ہو تو وہ ایک پیراسیٹامول کے لیے اپنے آپ کو بیچنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے. وہ زندہ لاشوں کو کندھے پر ڈالے وہیں بیٹھ گیا. سامنے ہی مین روڈ تھا. یہ روڈ حال ہی میں بنا تھا. وہ سوچ رہا تھا اس روڈ کی جگہ ہسپتال بنتا تو آج اس کے بچے شاید بچ جاتے. بچوں کی حالت ابتر ہوتی جارہی تھی. وہ مسلسل الٹیاں کرتے جا رہے تھے. ہسپتا ل میں او آر ایس تک ختم ہو چکے تھے.کل کی ہی بات ہے کہ اس نے قریبی شہر کے ہر دروازے پر دستک دی تھی اور ہر دروازے سے اسے ہڈحرام کوئی کام کیوں نہیں کرتا، ہمارے پاس کام نہیں ہے جیسے جوابات ملے تھے. مزدوری کرکے ہاتھ ٹوٹ گئے لیکن، سیٹھ نے عمارت تو بنا دی لیکن مزدوروں کے واجبات دیتے وقت ٹال مٹول سے کام لیتا رہا. یہاں تک کہ ایک دن وہ دبئی بھاگ گیا. آدھے مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے ہوگئے. جس میں اس کا بھی چولہا شامل تھا. بیوی غربت سے پہلے ہی مر چکی تھی. جتنی رقم تھی وہ اس کے علاج پر خرچ ہو چکی تھی.یہاں تک کہ اب وہ مکمل طور پر قرض میں ڈوب گیا تھا. بھکاری بننے کی کوشش کی تو لوگوں نے صحت کا طعنہ دے کر بھیک دینے سے انکار کیا. گھرگیا تو دومعصوم جانیں بلکتے روتے اس سے بس ایک التجا کر رہی تھیں کہ ابو پیٹ دکھ رہا ہے. کھانا دے دو ابو کھانا.. ابوکھانا.. صبا کی آواز نے اس کے خیالات کا سلسلہ توڑا اور مرتے ہوئے بچوں کو سامنے دیکھ کر اس نے ایک فیصلہ کیا، بہت بھیانک فیصلہ. میرے بچو! تم تو ویسے بھی مر جاؤ گے، میں جی کر کیا کروں گا. میرے اس اقدام سے شاید بہت سے دوسرے لوگوں کی جان بچ جائے.ابو کیا ہمیں کھانا ملے گا. ہمارے پیٹ میں بھی بہت درد ہو رہا ہے. دوائی بھی ملے گی نا ٹرین کی پٹری پر دونوں لاغر مریض بچوں کے ساتھ لیٹے اس سفاک مظلوم سے بچوں نے پوچھا تو وہ بلک بلک کر رو دیا. ہاں جب ٹرین آئے گی نا تب ملے گا،
میری صبا کو بھی اور میلے پالے شان کو بھی. بچو تھوڑا درد ہوگا، پھر بہت سا کھانا اور دوائی ملے گی. پھر ہمیں کبھی بھی بھوک نہیں لگے گی. سچ !!صبا کی آنکھوں میں جیسے زندگی کی چمک آگئی. لیکن کمزوری کی وجہ سے مسکرا بھی نہ سکی. ابو مدے بھی تھانا ملے دا.نھنے شان نے توتلی زبان میں التجا کی تو اس کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پٹڑی سے پھوڑ لے. میرے بچو مجھے معاف کرنا. ہمارا فیصلہ اللہ کرے گا. اس کی آنکھوں میں آنسو تھے. ٹرین کی آواز قریب آتی جا رہی تھی، ساتھ ہی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھرتی جا رہی تھی. ان کو لگ رہا تھا کہ ٹرین سے کوئی ان کے لیے روٹی اور دوائی لا رہا ہے. شان چلا رہا تھا. ابو تھانا آیا. تھانا آیا. آسماں کا رنگ گد لا ہو چکا تھا. شاید وہ بھی بچوں کی مظلومیت پر شرمندہ تھا. بادل زور زور سے گرج رہے تھے. تبھی ایک جھماکا ہوا. کچھ بھی نہیں بدلا.بس ٹی وی پر ایک خبر چلی. ایک شخص نے اپنے دوبچوں کے ساتھ ٹرین کی پٹڑی پر جان دے دی. ننھے پھول سے بکھر ے چہروں پر خون کی چھینٹوں کے ساتھ مسکراہٹ اسی طرح تازہ تھی اور خون آلود ہاتھوں میں روٹی اور دوائی کو پکڑنےکی خواہش.
..