مولانا ولی رازی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’دل کی دنیا کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے آج مجھے ایسے ہی ایک بے تاج بادشاہ کی یاد آ گئی ہے جسے بچپن میں راقم الحروف نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے، یہ صاحب کشف و کرامت بزرگ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے استاد حضرت مولانا اصغر حسین شاہؒ ہیں، جو ’’حضرت میاں صاحب‘‘ کے نام سے مشہور تھے.حضرت میاں صاحب کے مکان سے کچھ فاصلے پر ایک مسجد تھی جس میں حضرت میاں صاحب نمازیں ادا فرماتے تھے.
والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ مسجد کے راستے میں ایک حویلی نما مکان تھا جس کے دروازے پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے. حضرت میاں صاحب جب شام کے وقت اس دروازے کے سامنے سے گزرتے تو اپنے جوتے اتار لیتے تھے. والد صاحبؒ کو اس پر حیرت تھی کہ حضرت میاں صاحبؒ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
شروع میں پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی تھی. آخر ایک روز موقع دیکھ کر والد صاحبؒ نے پوچھ ہی لیا کہ حضرت! اس مکان میں کون رہتا ہے؟ اور آپ کے جوتے اتارنے کا کیا سبب ہے؟ پہلے تو حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ ’’میاں کیا کرو گے پوچھ کے‘‘ پھر کچھ وقفے کے بعد فرمایا ’’اس مکان میں ایک پیشہ ور رنڈی رہتی ہے اب اس کی عمر ڈھل چکی ہے لیکن جب یہ جوان تھی تو یہاں لوگوں کا ہجوم روزانہ رہتا تھا اور اس مکان میں کافی آمدورفت تھی، اب یہ بیچاری روزانہ شام کو بن سنور کر بیٹھتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ کوئی آئے، سو مجھے خیال آیا کہ شام کو جو لوگ اس کے دروازے سے گزرتے ہوں گے، ان کے جوتوں کی چاپ سن کر اس کو ایک امید پیدا ہوتی ہو گی کہ شاید کوئی اس کے پاس آیا اور
پھر جب یہ چاپ دور ہو جاتی ہو گی تو اس کی امید ٹوٹتی ہو گی تو میاں! ہم کیوں کسی کی ناجائز امید پیدا کرنے اور پھر اسے توڑنے کا سبب بنیں.ہماری پڑوسن ہے اپنی ذات سے اس کو تکلیف دینا تو صحیح نہیں‘‘ ذرا سوچئے ان اللہ والوں کی نظر کتنی باریک ہے، کہاں نظر پہنچی؟ پڑوسی کے حقوق کی بات تو سب نے ہی پڑھی لیکن اس وقت نظر کے ساتھ پڑوسی کے حقوق کا خیال رکھنا صرف اہل دل کا حصہ ہے اور واللہ یہ فہم و نظر دل کی صفائی اور ٹیوننگ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی‘‘.
..