بادشاہ لوگ


قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رفیق گنج کے تھانیدار کو ہمراہ لے کر میں ایک نہایت دور افتادہ علاقے کے دورے پر گیا، یہ مقام مکھیوں اور مچھروں کے لئے مشہور تھا. اس لئے ہم دونوں اپنی اپنی مچھر دانی ساتھ لے کر گئے تھے.

رات کو ہم دونوں نے جس چھوٹے سے ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا،وہاں چارپائیاں تو تھیں لیکن مچھر دانیاں لگانے کے لئے کسی قسم کے ڈنڈے موجود نہ تھے، مجبوراً مچھر دانی لگائے بغیر میں سامنے والے برآمدے میں لیٹ گیا اور تھانیدار نے اپنی چارپائی پچھلے برآمدے میں بچھا لی، لیٹتے ہی مٹر کے دانوں کی طرح موٹے موٹے مچھروں نے چاروں طرف سے زبردست یورش کر دی. وہ قطار در قطار پیں پیں کرتے ہوئے آتے تھے اور اس قدر بے رحمی سے کاٹتے تھے جیسے کوئی دہتکے ہوئے انگارے چمٹے سے اٹھا اٹھا کر سل رہا ہو

. مچھروں کے حملوں سے تو میرا برا حال ہو رہا تھا لیکن عقبی برآمدے سے برابر تھانیدار کے پرسکون خراٹوں کی آواز آ رہی تھی. آدھی رات کے قریب میں نے دبے پاؤں اٹھ کر اس کی طرف جھانکا تو دیکھا کہ تھانیدار صاحب کی چارپائی پر ان کی مچھر دانی بڑی آن بان سے تنی ہوئی ہے اور چار مقامی چوکیدار اسے چاروں کونوں سے تھامے بالکل بے حس و حرکت پتھر کے ستونوں کی طرح ایستادہ ہیں.

..