دل کے کُھسرے


’’میں دل کا خواجہ سرا ہوں‘ ‘یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے خواجہ سراؤں کی پوری کانفرنس کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ کبھی اپنی طرف دیکھتے تھے اورکبھی چھ فٹ تین انچ کے اس دیوہیکل نوجوان پر نظر ڈالتے اور ہائے اللہ کہہ کر انگلی منہ میں دبا لیتے تھے۔ یہ آل پاکستان خواجہ سرا کانفرنس کا منظر تھا۔ پاکستان دنیا کے ان چند خوش نصیب ممالک میں شمار ہوتا ہے جن میں ہر سال خواجہ سراؤں کی قومی کانفرنس ہوتی ہےاور ملک بھر کے کھسرے اس میں مذہبی جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ یہ

پانچ برس پرانی بات ہے آل پاکستان خواجہ سرا کانفرنس میں کھسروں نے چھ فٹ تین انچ کاایک خوبصورت نوجوان دیکھا‘ یہ نوجوان مردانہ وجاہت کا شہکار تھا اور کسی بھی زاویے سے خواجہ سرا دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن وہ اس کے باوجود کانفرنس میں سر جھکا کر بیٹھا تھا۔ خواجہ سراؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کھسرا کھسرے اور غیر کھسرے کو کروڑوں لوگوں میں پہچان لیتا ہے چنانچہ کانفرنس کے معزز اراکین بھی جلد ہی بھانپ گئے یہ اجنبی حقیقتاً اجنبی ہے چنانچہ انہوں نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔ نوجوان نے انہیں کھسرا ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا آخر میں جب ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی باری آ گئی تو وہ شرما کر بولا ’’بھائیو اور بہنو میں جسم نہیں دل کا کھسرا ہوں‘‘ تمام کھسروں نے اوئی اللہ کا نعرہ لگایا اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ بولا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے مکمل مرد بنایا تھا‘ مجھے سوا چھ فٹ کا قد کاٹھ بھی عنایت کیا‘ مجھے خوبصورت چہرہ اور مہرہ بھی دیا‘ میں بغیر تھکے دس کلومیٹر دوڑ بھی لگا سکتا ہوں‘ میں اعلیٰ خاندان سے تعلق بھی رکھتا ہوں اورمیں تعلیم یافتہ بھی ہوں لیکن میرے اندر حوصلےاور ہمت کی کمی ہے۔ میں برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی کہتے ہوئے گھبراتا ہوں چنانچہ میں نے سوچا مجھے مردانگی کے دعوؤں کی بجائے کھسرا بن جانا چاہئے اور یوں میں آپ کی کانفرنس میں شریک ہو گیا‘‘۔خواجہ سراؤں نے نوجوان کے اعتراف جرم کے بعد اس کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کے بارے میں راوی خاموش ہے لیکن پچھلے ہفتے پنجاب میں خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن شروع ہو گئی ہے۔رجسٹریشن کا یہ عمل سپریم کورٹ کے اس حکم کے تحت ہواجس میں عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں کو خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن اور ان کے حقوق کے تحفظ کا آرڈر دیا تھا۔ عدالت کے اس حکم کی بجاآوری کیلئے پنجاب حکومت نے چند دن قبل خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن شروع کر دی‘ پنجاب کے محکمہ سماجی بہبود نے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کیلئے 18کالم کا ایک فارم تیار کیا ہے اور یہ فارم تمام اضلاع کے سماجی بہبودکے دفتروں کو بھجوا دیاگیا ہے۔ اس فارم میں خواجہ سرا کے نام‘ عمر اور پیشے کے علاوہ اس کی ماہانہ آمدنی کی تفصیلات پوچھی گئی ہیں‘ فارم میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ وہ پیدائشی خواجہ سرا ہے یا پھر کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے کھسرا بنا۔ فارم میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ اسے زبردستی خواجہ سرا تو نہیں بنایا گیا؟فارم میں یہ بھی دریافت کیا گیا ہے کہ وہ موجودہ زندگی سے مطمئن ہے یا نہیں اور اس کے گرو کا کیا نام ہے۔ یہ فارم ہر لحاظ سے مکمل ہے لیکن اس میں چند بڑی فحش غلطیاں ہیں مثلاً میرا خیال ہے خواجہ سراؤں سے اس کے پیشے کے بارے میں پوچھنا غیر اخلاقی حرکت ہے کیونکہ بعض پیشے بتانے کیلئے نہیں چھپانے کیلئے ہوتے ہیں چنانچہ فارم کے اس خانے کی وجہ سے 90فیصد خواجہ سراؤں کو جھوٹ بولنا پڑے گا اور اللہ کے کسی آزاد بندے کو جھوٹ پر مجبور کرنا گناہ کبیرہ ہےاور اگر کسی خواجہ سرا نے اس خانے میں رکن اسمبلی یا سینیٹر لکھ دیا تو اس سے جو آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی آپ اس کا اندازا لگا سکتے ہیں۔ خواجہ سراؤں سے آمدنی کا حساب طلب کرنا بھی زیادتی ہے کیونکہ ان بے چاروں کی روزی ہوائی ہوتی ہے اورہوائی روزی کا حساب رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس فارم میں ایک اضافہ بھی ہونا چاہئے‘ خواجہ سراؤں سے یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ وہ پیدائشی خواجہ سرا ہیں یاپھر انہوں نے یہ پیشہ فلاح عامہ کیلئے رضاکارانہ اختیار کیا تھا۔ حکومت کوچاہئے یہ اس فارم میں دل کے کھسروں کی ایک نئی کٹیگری بھی متعارف کرا ئے اور اس کٹیگری کے تحت ان تمام لوگوں کی رجسٹریشن کی جائے جو حوصلے‘ ایمان اور ہمت کے خواجہ سرا ہیں۔ دل کے ان کھسروں کی فہرست تیار کی جائے اور یہ فہرست بعدازاں نادرا کے سسٹم میں ڈال دی جائے تاکہ ملک میں جب بھی مارشل لاء لگے گااور کسی توپ علی خان کو نئی مسلم لیگ کی پیش کش آئے تو وہ بڑی آسانی سے اس فہرست سے اپنی مرضی کے لوگ منتخب کر سکے گا۔ اس ایکسرسائز سے قوم نیب کے خرچوں سے بھی بچ جائے گی اور ملک کو ایجنسیوں کے اخراجات بھی برداشت نہیں کرنا پڑیں گے۔ بس کمپیوٹر پر ایک انگلی دبائی اور دل کے ڈیڑھ کروڑ کھسروں کا ڈیٹا سامنے آگیا اور ان میں سے چھان پھٹک کر اپنی مرضی کے کسی خواجہ سرا کو اطلاعات و نشریات کا قلم سونپ دیا‘کسی کو تجارت کی وزارت دے دی‘ کسی کو خزانہ عنایت کر دیا‘ کسی کو ریلوے کی وزارت دے دی‘ کسی کو پانی اور بجلی کا وزیر بنا دیا اور کسی کو سینٹ کی چیئرمین شپ اور کسی کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا اور اللہ اللہ خیر صلا۔حکومت فارم میں دل کے کھسروں کا نیا خانہ ضرور بنائے لیکن اس فارم کی ڈسٹری بیوشن میں بڑی احتیاط سے کام لے۔ ایسا نہ ہو جائے کہ یہ فارم ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ میں تقسیم ہونے لگےکیونکہ یہ حقیقت ہے ہماری پارلیمنٹ میں اس وقت دل کے بے شمار کھسرے موجود ہیں‘ ان لوگوں میں ہمت کی اس قدر کمی ہے کہ یہ اپنی قیادت کے سامنے کلمہ تک پڑھنے کی جرات نہیں کرتے۔ یہ لوگ اپنی قیادت کی طرف کمر کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں اور قیادت کے اشاروں کو آسمانی حکم سمجھ کر اس پر سر تسلیم خم کرتے دیر نہیں لگاتے۔ دل کے ان کھسروں نے آج تک پارٹی پالیسی کے خلاف ایک لفظ ادا نہیں کیا‘پارٹی کی قیادت جونہی پالیسی تبدیل کرتی ہے دل کے یہ کھسرے بھی چند لمحوں میں اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور انہیں آج تک اپنی اس حرکت پر شرمندگی نہیں ہوئی۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ 15مارچ اور اس کے بعد 17مارچ کے اخبارات کھول کر دیکھ لیں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے جو لوگ پندرہ مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان کو سیاسی شخصیت قرار دے رہے تھے اور ہاتھ اٹھا کر دعوے کر رہے تھےافتخار محمد چودھری بحال نہیں ہوں گے‘ وہ لوگ اگلے ہی دن چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کو حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دے رہے تھے۔ آپ اگر دل کے کھسروں کی ذرا سی مزید تفصیل میں جانا چاہیں تو آپ دس فروری 2008ء اور 28جولائی 2009ء کے اخبارات سامنے رکھ کر دیکھ لیں‘ آپ یہ جان کربھی حیران رہ جائیں گے وہ لوگ جو جنرل پرویز مشرف کو سید پرویز مشرف‘ ملک کا تا حیات صدر‘جمہوریت کا چیمپئن اور فاتح کارگل قرار دیتے تھے وہ 26‘ 27اور 28جولائی کو حکومت سے درخواست کر رہے تھے وہ پرویز مشرف کو لندن سے واپس لائیں ‘انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور ان سے قوم کے ایک ایک ظلم کا حساب لیں۔ وہ لوگ جو پانچ‘ پانچ گھنٹے تک صدر پرویز مشرف کے پیچھے کھڑے رہتے تھے‘ جو مشرف کے واش روم کے سامنے ٹشو پیپر لے کر کھڑے رہتے تھے اور رات کے پچھلےپہروں میں اپنی ٹائی سے ان کی بانچھیں صاف کرتے تھے وہ بھی آج پرویز مشرف کو آمر‘ غاصب اور آئین کا مجرم قرار دے رہے ہیں اور انہیں ایک لمحے کیلئے شرم نہیں آ تی‘ انہیں شرم آ بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ لوگ دل اور ضمیر کے خواجہ سرا ہیں ۔ جسمانی خواجہ سرا تو کبھی نہ کبھی تھک جاتے ہیں‘ ان کا بھی کوئی نہ کوئی معیار یا ضابطہ اخلاق ہوتا ہے لیکن دل اور ضمیر کے خواجہ سراؤں کا کوئی معیار ہوتا ہےاور نہ ہی ضابطہ اخلاق۔ یہ لوگ جب لڑھکنے پر آتے ہیں تو کسی نہ کسی جرنیل کے بوٹوں کے پاس جا کر ہی رکتے ہیں اور اس وقت تک اس بوٹ پر زبان پھیرتے رہتے ہیں جب تک جرنیل جرنیل رہتا ہے۔حکومت نے اگر دل اور ضمیر کے خواجہ سراؤں کیلئے کوئی فارم بنایا ہے تو میرا مشورہ ہے وہ یہ فارم شوکت عزیز کو ضرور بھجوایا جائے کیونکہ وہ دل کے کھسروں کی عالمی تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے اس تنظیم کا صدر کون ہے؟ توآپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے اس تنظیم کاصدارتی عہدہ ابھی خالی ہے لیکن یہ عہدہ بھی اب زیادہ دنوں تک خالی نہیں رہے گا کیونکہ رچرڈ ہالبروک اس جلیل القدر عہدے کیلئے چند لوگوں کو تیار کررہے ہیں۔ میری حکومت سے یہ بھی درخواست ہے ملک میں جب دل کے کھسروں کی کیٹگری متعارف کرائی جائے تو اسے اصلی اور خالص کھسروں سے الگ رکھا جائےکیونکہ یہ نہ ہو چند دنوں بعد کوئی گرو بوبی اٹھے اور سپریم کورٹ میںیہ رٹ دائرکر دے کہ دل کے کھسرے ہماری بدنامی کا باعث بن رہے ہیں چنانچہ انہیں ہم سے الگ کیا جائے اور عدالت کو خواجہ سراؤں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ایک بار پھر سو موٹو ایکشن لینا پڑ ے۔عاشق علی فرخ ملک کے سینئر صحافی ہیں‘ شاہ جی کی پوری زندگی کوچہ صحافت میں گزری اور انہوں نے اس شعبے کو سینکڑوں‘ ہزاروں نئے صحافی دئیے۔شاہ جی میرے فین بھی ہیں اور ناقد بھی ‘ یہ عموماً میرے کالموں کا استاد کی نظر سے جائزہ لیتے ہیں اور ان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ مجھے کل شاہ جی کا ٹیلی فون آیا اور انہوں نے فرمایا ’’میں نے جب سے دل کے کھسرے پڑھا ہے میں سوچ رہا ہوں میں کیا ہوں؟‘‘ میں نے جواب میں عرض کیا ’’میں بھی کل سے یہی سوچ رہا ہوں‘‘ شاہ جی نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ہمارے ملک میں عورتیں اور مرد کم ہیں اور کُھسرے زیادہ ہیں چنانچہ ہم سب لوگ اگر چند لمحے بیٹھ کر سوچیں تو ہم اپنے آپ کو دل کا کھُسرا پائیں گے‘‘۔شاہ کی بات تلخ بھی تھی اور رسوائی کی بھی لیکن بات تھی سچ۔ ہم سب لوگ کسی نہ کسی سطح‘ کسی نہ کسی زاویے سے کھُسرے ہیں‘ ہم لوگ کھسرے کیسے ہیں؟ اس کا جواب یونان کے قدیم بادشاہ سولون نے آج سے چھبیس سو سال پہلے دیا تھا۔ میں سولون سے واقف نہیں تھا‘ اس شخص سے میرا پہلا تعارف دنیا کےنامور مورخ ول ڈیورانٹ نے کرایا تھا۔ میں نے ول ڈیورانٹ کی کتاب میں سولون کا تذکرہ پڑھا اور اس کے کارنامے دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ آپ نے قانون کی کتابوں میں اکثر یہ فقرہ پڑھا ہوگا ’’قانون مکڑی کا جالا ہے‘یہ چھوٹی چھوٹی مکھیوں کو جکڑ لیتاہے جبکہ بڑے بڑے کیڑے مکوڑے اس جالے کو توڑ کر نکل جاتے ہیں‘‘ یہ فقرہ سولون کی تخلیق تھا۔ سولون سقراط‘ ارسطو‘ افلاطون‘ فیثا غورث اور بقراط کی پیدائش سے ڈیڑھ سو سال پہلے یونان کا حکمران تھا اور اس کے بارے میں ول ڈیورانٹ نے لکھاتھا اگر سولون نہ ہوتا تو شائد دنیا میں سقراط‘ بقراط اور ارسطو جیسے فلاسفر پیدا نہ ہوتے اور لوگ شائدآج یونان کے نام تک سے واقف نہ ہوتے۔ وہ ایتھنز کے ایک عام مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوا‘ اس نے جوانی میں تجارت شروع کی‘ بے تحاشا پیسہ کمایا اور پھر اچانک اسے محسوس ہوا یونان اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے گراوٹ کا شکار ہےاور اگر اس نے آگے بڑھ کر معاشرے کو سنبھالا نہ دیا تو یہ سلطنت بھی برباد ہو جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ یونان کی ایلیٹ کلاس بھی ختم ہو جائے گی۔ وہ سیاست میں آیا اور 594 قبل مسیح میں یعنی آج سے چھبیس سو سال پہلے ایتھنز کے ایک چھوٹے سے علاقے کا مجسٹریٹ بن گیا۔ وہ بے انتہا ذہین‘ دانش مند‘ ایماندار اورمتحرک انسان تھا چنانچہ اسے مجسٹریٹ سے بادشاہ بنتے دیر نہ لگی۔ یونان کا حکمران بننے کےبعد سولون نے بڑے دلچسپ اقدامات کئے‘ اس نے سلطنت کیلئے ایک ایسا آئین بنایا جس میں ملک کے تمام طبقے برابر تھے‘اس نے ایک حکم کے تحت عام لوگوں کے تمام قرضے معاف کر دئیے اور ملک میں سود کے کاروبار پر پابندی لگا دی‘ اس نے غلامی کے خاتمے کااعلان بھی کیا اور تمام غلام آزاد کر دئیے۔ اس نے سیاسی الزامات میں قید تمام ملزموں کوبھی عام معافی دے دی۔ اس نے ملک کوچار طبقوں میں تقسیم کیا‘پہلے طبقے یعنی امراء پر 12فیصد‘ دوسرے طبقے پر دس فیصد اور تیسرے طبقے پر 5فیصد انکم ٹیکس نافذ کیا جبکہ چوتھے یعنی غریب طبقے کو ہر قسم کے ٹیکس سے آزاد کر دیا۔ اس نے تمام شہریوں کیلئے ووٹ لازمی قرار دیا اور اس کے دور میں ملک کا کوئی بھی شہری پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا تھا ‘اس نے عدلیہ کوبھی مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنا دیا۔یہ سولون کے چند بڑے بڑے اقدامات تھے لیکن آپ اس کے چندھوٹے چھوٹے لیکن دلچسپ اقدامات بھی ملاحظہ کیجئے۔ سولون نے مستقل آوارہ گردی اور بے کاری کو جرم کا درجہ دے دیاچنانچہ اس کی سلطنت میں جو شخص کسی عذر کے بغیر ایک مہینے تک بے کار رہتا تھا اسے سر عام کوڑے مارے جاتے تھے۔ سولون کے دور میں کسی ایسے شخص کو اسمبلی میں داخل ہونے اور عوامی اجتماع سے خطاب کی اجازت نہیں تھی جس پر عیاشی یا کرپشن کا الزام لگ جاتا تھا۔ اس کے دور میں بد کاروں کو موقع واردات پر قتل کر دیا جاتا تھا‘ اس کے دور میں عوامی جگہوں پر گالیبکنا جرم تھا اور اس کے دور میں سرکاری ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے سرکاری ملازمین کے خاندان کی کفالت حکومت کی ذمہ داری تھی۔ سولون نے ان اقدامات کے ذریعے دنیا کا پہلا جدید اور مہذب معاشرہ تشکیل دیاتھا‘ وہ تاریخ کا کتنا بڑا انسان تھا آپ اس کا اندازا صرف اس بات سے لگا لیجئے کہ اس کا ایک قول Maden Agan یونان کے سب سے بڑے مندر ڈیلفی کے اپالو معبد کے دروازے پر کندہ کیا گیا تھا ۔ اس قول کا مطلب تھا ’’کسی چیز میں زیادتی نہ کرو یعنی اعتدال اختیار کرو‘‘ یہ قول بعدازاں دنیا کےتمام مذاہب‘ تمام آئینوں‘ قانون کی تمام بڑی کتابوں‘ تمام بڑے فلسفوں اور تمام کلاسیک تحریروں کا حصہ بنا۔ یہ سولون ہی تھا جس نے 572قبل مسیح میں اعلان کیا تھا ہم قانون کو جتنا چاہے مضبوط بنا لیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی کہ قانون مکڑی کا جالا ہے‘ یہ چھوٹی چھوٹی مکھیوں کو جکڑ لیتا ہے جبکہ بڑے بڑے کیڑے مکوڑے اس جالے کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ سولون دنیا کا ایساپہلا حکمران بھی تھا جس نے دل کے کھُسروں کے خلاف باقاعدہ قانون بنایا تھا اور اس نے اس قانون کے ذریعے بے شمار لوگوں کو سزا دی تھی۔ سولون کے دور میں فسادات‘ جھگڑوں‘ لڑائیوں‘ پڑتالوں اور جلوسوں کے دوران غیر جانبدار رہنے والے شہریوں کی شہریت منسوخ کر دی جاتی تھی۔ سولون ایسے لوگوں کو جلا وطن کر دیتا تھا کیونکہ سولون ان لوگوں کو یونانی شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا تھاجن کے سامنے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جاتا تھا‘ درخت کاٹے جاتے تھے‘ سڑک توڑی جاتی تھی‘ حکومتی دفاتر اور سرکاری اشیاء کو خراب کیا جاتا تھا یا ان کے سامنے حکومتی عہدیدار رشوت لیتے تھے‘ کسی حقدار کا حق غصب کرتے تھے اور وہ خاموش رہتے تھے‘ وہ کہتا تھا ’’جو شخص یونان کے نقصان پر خاموش رہتا ہے وہ یونانی نہیں ہو سکتا چنانچہ اس کی شہریت ختم کر دینی چاہئے‘‘ وہ ایسے لوگوں کی شہریت کینسل کر کے انہیں یونان سے بے دخل کر دیتا تھا اور یہ لوگ دوبارہ کبھی یونان کیحدود میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ سولون ان لوگوں کو ’’غدار‘‘ کہتا تھا لیکن میرا خیال ہے یہ لوگ غدار نہیں بلکہ دل کے کھسرے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا موٹو ’’دیکھو مگر خاموش رہو‘‘ ہوتا ہے چنانچہ ان کے سامنے کوئی شخص پورا ملک توڑ دے‘ ملک کے پورے آئین کا حلیہ بگاڑ دے‘ مارشل لاء لگا دے‘ ایمرجنسی نافذ کر دے‘ پوری پارلیمنٹ کو گھر بھجوا دے‘ پورے قانون کو این آر او یا ایل ایف او بنا دے‘پورے ملک کے وسائل کو اپنے رشتے داروں میں تقسیم کر دے‘ لوگ دل کے کھسروں کے سامنے سڑکوں پر نکل کر سارے شیشے توڑ دیں‘ دکانیں لوٹ لیں‘ گاڑیوں کو آگ لگا دیں واپڈا کے دفاتر کو جلا دیں‘ ٹرینوں اور بسوں پر پٹرول چھڑک دیں‘ سرکاری عمارتوں سے جھنڈے اتار کر ان کی تذلیل کریں یا ان کے سامنے عدالتیں دکانیں‘ تھانے عقوبت خانے اور سرکاری دفاتر پاگل خانے بن جائیں‘سیاستدان لوٹ مار کابازار گرم کر دیں‘ حکمران سرکاری خزانہ ذاتی عیاشیوں میں اڑانے لگیں یابیوروکریسی قانون کو موم کی ناک بنا دے‘ دل کے یہ کھسرے آنکھ‘ ناک اور کان بند کر کے اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں‘یہ ان لیڈروں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس لوٹ مار پر ان کے ہونٹوں پر شکوے اور شکایت کا کوئی حرف آتا ہے‘یہ لوگ کھسروں کی طرح شرما شرما کر زندگی گزار دیتے ہیں۔ ہم اگر اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالیں توہمیں کروڑوں کی تعداد میں دل کے کھسرے ملیں گے‘ یہ لوگ پاکستان میں رہتے ہیں‘ پاکستان کا کھاتے ہیں‘ ان کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ ہے لیکن یہ لوگ پاکستان کے لٹنے اور برباد ہونے پر خاموش رہتے ہیں اور کوئی ادارہ‘ کوئی عدالت ان کے اس رویے پر ان کا احتساب نہیں کرتی۔ یہ حقیقت ہے یہ چند لوگ نہیں ہیں‘ یہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور ہم بھی دل کے کھسروں کی اس یونین کے ممبر ہیں۔ ہم میں سےصرف چند لوگ ہوں گے جنہیں پورا پاکستانی یا پورا مرد کہلانے کا حق حاصل ہے۔ باقی سب لوگ کھسرے ہیں۔ دل کے کھسرے۔گیبریل گارشیا مارکیز دنیا کا مشہور نوبل انعام یافتہ لکھاری ہے‘ اس نے کسی جگہ لکھا تھا دنیا کا ہر مرد ایک وقت تک نامرد ہوتاہے پھر اس کی زندگی میں کوئی عورت داخل ہوتی ہے اور وہ اسے مرد ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی نامردوں کا معاشرہ تھا‘ ہم سب ڈر‘ ڈر کر سہم‘سہم کر زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر ہماری معاشرتی زندگی میں عدلیہ اور میڈیا آیا اور اس نے ہمیں مرد بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آج اس ملک میں عدالت بھی آزاد ہے اور میڈیا بھی اور یہ دونوں مل کر معاشرے میں مردانگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا لوگ میڈیا اور عدالت کے ہوتے ہوئے بھی اب کھسروں جیسی زندگی گزارتے ہیں تو پھر طے ہو جائے گا یہ دل کے کھسروں کا ملک ہے اور اس ملک کے ہر شخص کا نام کھسروں کی فہرست میں درج کر دینا چاہئے۔