یہ خط تم بالکل اکیلے میں پڑھنا


یہ تب کی بات ہے جب میں صرف تیرہ سال کا تھا اور ہر وقت موڈ سونگز کا شکار رہتا تھا۔ ایک دن میں کالج سے گھر لوٹا تو بہت غصے میں تھا۔ میری اپنے کلاس کے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بالکل نہیں بنتی تھی ۔ نئے نئے ادھر شفٹ ہوئے تھے۔ بہت مشکل سے کلاس میں ایڈجسٹ ہو رہا تھا۔ ٹین ایج تھی ویسے بھی میں ہر وقت لڑنے کو تیار رہتا تھا۔ غصہ تو ہر وقت میری ناک پر سوار رہتا تھا۔ میں گھر لوٹا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف آگیا۔ ماما ابو کے ساتھ کھانا بھی

نہیں کھایا۔پیچھے سے ابو نے آواز دی کے بیٹے آ کر کھانا تو کھا لو۔ میں نے دھڑام سے دروازہ بند کیا اور آگے سے ان کو میرا تلخ جواب خود ہی رسید ہو گیا۔ میں سیدھا اپنے بیڈ پر گرا اور تھوڑی دیر میری آنکھ لگ گئی۔ اٹھا تو مجھے تکیے کے نیچے کچھ محسوس ہوا۔ میں نے ہاتھ سے ٹٹولا تو ایک خط پڑا ہوا تھا اور خط پر لکھا تھا: ’بالکل اکیلے میں پڑھنا‘۔ میں بہت حیران ہوا۔ میں نے کھول کر پڑھا تو لکھا تھا: مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ تمہارا آج کا دن بہت برا گزرا ہے۔ لیکن میری بات کا یقین کرو کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ابھی تم نئے نئے ادھر آئے ہو۔ کالج میں ایڈجسٹ ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ جو مرضی ہو جائے ہمت مت ہارنا اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم چاہے ساری دنیا کو عزیز ہو یا سب تمہیں برا بھلا کہیں، مجھے تم ہمیشہ ساری دنیا سے زیادہ پیارے رہو گے کیونکہ اگر میں سچ بولوں تو تم ہی میری دنیا ہو اور اس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ تمہاری ماما۔۔۔۔مجھے ہنسی آگئی۔ میری ماما کتنی عقل مند تھیں اور کتنی بھولی۔ انہوں نے ایسا خط لکھ کر میرے تکیے کے نیچے ڈال دیا تاکہ نہ تو میرا برا موڈ سہنا پڑے اور وہ جانتی تھیں کہ ویسے تو مین نے ان کی کسی بات پر کان دھرنے نہیں تھے ۔تجسس میں میں نے پورا خط بھی پڑھ لیا۔ اس کے بعد بھی جب کبھی بھی میرے ساتھ کچھ برا ہوتا تو مجھے ہمیشہ اپنے تکیے کے نیچے سے ایسے خط ملتے رہتے۔جب میں اپنی جاب پر لگ گیا تو ایک دن ایک مریض میرے پاس آئی۔ اس نے جب چیک اپ کروا کے پرسکرپشن لکھوالی تو جاتے ہوئے مجھے بولی: ڈاکٹر صاحب میں بہت پریشان ہوں میرا بیٹا ابھی اپنی ٹین ایج سے گزر رہا ہے، ہر وقت پریشان رہتا ہے۔ غصہ کرتا ہے، کبھی بتاتا بھی نہیں ہے کہ کیا چیز تنگ کر رہی ہے۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس کا کیا کروں؟ مجھے اپنی ماما کے وہ خط یاد آگئے۔میں نے بولا کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں بلکہ جب میں اپنی ٹین ایج میں تھا تو میری امی اس طرح خط لکھ کر میرے تکیے کے نیچے رکھ دیتی تھیں اور میں ان کو پڑھ کر پر سکون ہو جاتا تھا۔ کچھ دن بعد اسی عورت نے مجھے فون کیا اور بولی کہ میرا بیٹا بہت خوش ہوا تھا۔ میں نے اسے ایسا خط لکھا کہ جب تم اکیلے ہو، صرف تب پڑھنا اوراس نے دو دن بعد مجھے بتایا کہ اس وقت موڈ آف تھا لیکن آپ کا خط پڑھ کر میں بھول گیا تھا کہ مجھے کیا چیز تنگ کر رہی تھی۔میں بہت خوش ہوا کہ میری ماما کا اتنا پر اثر طریقہ اور بچوں کی ٹین ایج میں بھی کام آرہا تھا۔ بات یہ ہے کہ ہر عمر کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ٹین ایج میں تمام لڑکے اور لڑکیا ں ہارمونل تبدیلیوں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر ماں باپ بچے کو تنگ کریں یا اس سے زیادہ سوال جواب کریں تووہ بگڑ جاتے ہیں اور باغی ہو جاتے ہیں۔ انسان ایک دوسرے کو اپنے پیار محبت اور احساس کا مختلف طریقوں سے یقین دلاتے ہیں۔ لیکن سب سے اچھا طریقہ تو کمیونیکشن ہی ہے۔جب ہم ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں تو دوسرے کو یہ باور کروا لیتے ہیں کہ ہمیں ان کا احساس ہے۔ سب سے بہترین طریقہ ٹین ایج میں اپنے بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے یہی ہے کہ ان کی پرسنل سپیس کا بھی خیال رکھیں اور ان کو اپنا پیغام بھی پہنچا دیں۔ سب سے بڑی دوا جو ہر مرض کی دوا ہے، وہ ہے پیار ، محبت اور عزت۔ جس انسان کو بھی پیار اور عزت ملتے ہیں وہ پنپتا ہے۔ مجھے اپنی ماں کے ہر خط سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ کبھی مجھے پیار کرنا نہیں چھوڑیںگی۔ ماں باپ کا بے لوث پیار انسان کو بہت ہمت اور حوصلہ دیتا ہے۔