بادشاہ مراد نے ایک رات بڑی گھٹن اور تکلیف محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اس کا سبب نہ جان سکا،اس نے اپنے سکیورٹی انچارج کو بلایا اس کو اپنی بے چینی کی خبر دی انچارج کو بھی کچھ سمجھ نہ آئی .بادشاہ کی عادت تھی کہ وہ اکثر بھیس بدل کر عوام کی خفیہ خبر گیری کرتا تھا .
بادشاہ نے انچارج سے کہا کہ چلو چلتے ہیں اور کچھ وقت لوگوں میں کزارتے ہیں شاید بے چینی ختم ہو جائے.شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک شخص گرا پڑا ہے تو بادشاہ نے اسکو ہلا کر دیکھا تو وہ مردہ تھا .بادشاہ نے سب کو آواز دے کر بلا لیا اوربادشاہ نے کہا کہ آدمی مرا ہوا ہے اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا کون ہے یہ اور اس کے گھر والے کہاں رہتے ہیں.
لوگوں نے کہا یہ زندیق شخص ہے بڑا شربی اور زانی آدمی تھا،بادشاہ نے کہا کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ہے چلو اس کو اٹھاؤ اور اس کے گھر لے چلو لوگوں نے میت کو گھر پہنچا دیا اس کی بیوی شوہر کی لاش دیکھ کے رونا شروع ہو گئی اور لوگ چلے گئے بادشاہ اور اس کے سپاہی وہیں گھڑے تھے اور عورت کا رونا سن رہے تھے تب عورت نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہو ں بیشک تو اللہ تعالیٰ کا ولی ہے اور نیک لوگوں میں سے ہے سالطان نے کہا یہ کیسے ولی ہو سکتا ہے لوگ تو اس کے بارے میں کہ رہے تھے کہ یہ شرابی اور زانی ہے تو وہ عورت بولی کہ مجھے بھی لوگوں سے یہی امید تھی کیونکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا شوہر ہر روز شراب خانے سے جتنی زیادہ ہو سکے شراب خرید کر گھر لا کر گڑھے میں بہا دیتا تھا
اور کہتا تھا کہ چلوکچھ تو گناہوں کا بوجھ مسلمانوں سے ہلکا ہوا،اس طرح کسی ایک طوائف کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دیتا اور اس کو کہتا کہ اپنے کمرہ کا دروازہ بند کر لو کوئی تیرے پاس نہ آئے ،گھر آکر کہتا الحمداللہ آج اس عورت کا اور نوجوانوں مسلمانوں کے گناہوں کاکچھ بوجھ میں نے ہلکا کردیا ہے،لوگ ااے شراب کانے اور طوائفکے گھروں سے واپس گھر آتا جاتا دیکھتے تھے ،میں اسے کہتی تھی جس دن تو مر گیا لوگوں نے تجھے نہ غسل دینا ہے نہ تیری نماز جنازہ پڑھانی ہے اور نہ توجھے دفنانا ہے تو وہ کہتا تھا کہ میرا جنازہ وقت کے بادشاہ،علماء اور اولیاء پڑھیں گے.بادشاہ رو پڑے اور کہنے لگے میں سلطان مراد ہو ہم کل آئیں گے اور اس شخص کا جنازہ بادشاہ ،علماء اور اولیائنے ہی پڑھا .
..