ایک فاحشہ انتہائی حسین تھی بدکاری بھی انتہا کوتھی


انسان ہمیشہ سے ہی صنف مخالف کیلئے اپنے جذبات رکھتاہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی بھی کمی نہیں، جو کسی وقت شیطان کے بہکاوے میں توآسکتے ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی نہیں کرسکتے اور شر سے محفوظ رہتے ہیں ، اگر صحبت کسی پاکباز کی میسر آجائے تو بدسے بدترانسان بھی ہدایت کی راہ
پر چلے بغیر نہیں رہ سکتا۔ روزنامہ امت کے مطابق ”حضرت حسن بصری علیہ الرحمة فرماتے ہیں کہ’ایک فاحشہ عورت کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے دنیا کا تہائی حسن دیا گیا ہے۔ اس کی بدکاری بھی انتہا کو پہنچ چکی تھی، جب تک وہ سودینار نہ لے لیتی، اپنے قریب کسی کو نہ آنے دیتی۔ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اتنی بھاری رقم اداکرکے بھی اس کا قرب حاصل کرتے۔اک مرتبہ ایک عابد کی اس عورت پر اچانک نظر پڑگئی، اتنی حسین و جمیل عورت کو دیکھ کر وہ عابد اس کے عشق میں مبتلا ہوگیا اور اس نے ارادہ کیا کہ میں س حسین وجمیل عورت کا قرب ضرور حاصل کروں گا، جب اسے معلوم ہوا کہ 100دینا ر دئیے بغیر میری یہ حسرت پوری نہیں ہوسکتی تو اس نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لئے دن رات مزدوری کرنا شروع کی۔ کافی تگ و دو کے بعد جب 100 دینار جمع ہوگئے تو وہ اس بدکار عورت کے پاس پہنچا اور کہا : ”اے حسن و جمال کی پیکر! میں نے مزدوری کرکے سودینار کئے اور وہ لے کر تیرے پاس آیا ہوں۔ یہ سن کر اس فاحشہ عورت نے کہا: ”اندر آجاؤ۔“ جب وہ عابد کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ حسین و جمیل عورت سونے کے تخت پر بیٹھی ہے۔ اس نے عابد سے کہا: ”میرے قریب آؤ، میں حاضر ہوں۔“ وہ عابد بے تاب ہوکر اس کی طرف بڑھا اور اس کے قریب تخت پر جابیٹھا۔ جب وہ دونوں خدا کی نافرمانی کے لئے بالکل تیار ہوگئے تو اس عابد کی سابقہ عبادت اس کے کام آگئی اور اسے خدا عزوجل کی بارگاہ میں حاضری کا دن یاد آگیا۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اس کی گناہ کی خواہش ختم ہوگئی اور اسے اپنے اس فعل بد کے ارادے پر بڑی شرمندگی ہوئی۔ اس نے عورت سے کہا: ”مجھے جانے دو اور یہ سودینار بھی تم اپنے پاس رکھو، میں اس گناہ سے باز آیا۔“اس عورت نے حیران ہوکر پوچھا: ”آخری تمہیں کیا ہوا؟ تم تو کہہ رہے تھے کہ میرا قرب حاصل کرنے کے لئے تم نے بہت جتن کئے، اب جب کہ تم میرے قرب میں ہو اور میں نے اپنے آپ کو تمہارے حوالے کردیا ہے تواب تم مجھ سے دور بھاگ رہے ہو، آخری کیا چیز تمہیں میرے قریب سے مانع ہے؟“یہ سن کر اس عابد نے کہا :”مجھے اپنے رب و عزوجل سے ڈر لگ رہا ہے اور اس کا خوف تیری طرف مائل نہیں ہونے دے رہا، مجھے اس دن کا خوف دامن گیر ہے، جب میں اپنے پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوں گا، اگر میں نے یہ گناہ کرلیا تو کل بروز قیامت رب تعالیٰ کی ناراضی کا سامنا کس طرح کرسکوں گا؟ لہٰذا اب میرا دل تجھ سے اچاٹ ہوچکا ہے، مجھے یہاں سے جانے دو۔“عابد کی یہ باتیں سن کر فاحشہ عورت بہت حیران ہوئی اور کہنے لگی: ”اگر تم اپنی اس گفتگو میں سچے ہو تو میں بھی پختہ ارادہ کرتی ہوں کہ تمہارے علاوہ کوئی اور میرے شوہر ہرگز نہیں بن سکتا، میں تم ہی سے شادی کروں گی۔“ عابد کہنے لگا: ”تم مجھے چھوڑ دو، مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے۔“ عورت نے کہا: ”اگر تم مجھ سے شادی کرلوتو میں تمہیں چھوڑ دیتی ہوں۔“ عابد نے کہا: ”جب تک میں یہاں سے چلا نہ جاؤں، اس وقت تک میں شادی کے لئے تیار نہیں۔“ عورت نے کہا: ”اچھا! ابھی تم چلے جاؤ، لیکن میں تمہارے پاس آؤں گی اور تم ہی سے شادی کروں گی۔“ پھر وہ عابد سر پر کپڑا ڈالے منہ چھپائے شرمندہ شرمندہ وہاں سے نکلا اور اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔چنانچہ اس نے اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کرلی، پھر اس نے اپنے شہر کو خیرباد کہا اور اس عابد کے بارے میں پوچھتی پوچھتی بالآخر اس کے گھر پہنچ گئی۔ لوگوں نے عابد کو بتایا کہ فلاح عورت تم سے ملاقات کرنا چاہتی ہے ۔ عابد باہر آیا، جیسے ہی اس کی نظر عورت پر پڑی تو ایک زوردار چیخ ماری اس کی روح عالم بالا کی طرف پرواز کرگئی۔عورت اس کی طرف بڑھی تو دیکھا کہ اس کا جسم ساکت ہوچکا تھا۔ وہ بہت زیادہ غمزدہ ہوئی اور اس نے لوگوں سے پوچھا: ”کیا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار ہے؟ “لوگوں نے کہا :”ہاں، اس کا ایک بھائی ہے، لیکن وہ بہت غریب ہے۔“ یہ سن کر اس عورت نے کہا : ”میں تو اس نیک عابد سے شادی کرنا چاہتی تھی، لیکن یہ تو دنیا سے رخصت ہوگیا، اب میں اس کی محبت میں اس کے بھائی سے شادی کروں گی۔“ چنانچہ اس عورت اور عابد کے بھائی کی شادی ہوگئی۔ رب تعالیٰ نے انہیں نیک و صالح اولاد عطا فرمائی اور ان کے ہاں سات بیٹے ہوئے، سب کے سب اپنے زمانے کے مشہور ولی بنے‘