صدقہ بلاوں کو ٹال دیتا ہے


ایک نوجوان نے کسی تنگدست بوڑھے کی مدد کی تھی. گردش زمانہ سے یہ نوجوان کسی سنگین جرم میں گرفتار ہوااور اسکو قتل کی سزا سنائی گی سپاہی اسکو لیکر قتل گاہ کی طرف روانہ ہوے تو تماشہ دیکھنے کے لیے سارا شہر امنڈ آیا .

ان میں وہ بوڑھا بھی تھا جسکی مدد اس نوجوان نے کی تھی بوڑھے نے اپنے محسن کو اس حال میں دیکھا تو اسکا دل زحمی ہوا اور زور زور سے رونے کر دھائی دینے لگا” ہاے لوگوں ہمارا نیک دل بادشاہ آج وفات پا گیا افسوس آج دنیا تاریک ہوگی”سپاہیوں اور لوگوں نے جب یہ حبر سنی تو مارے پریشانی کے نوجوان کو وہی چھوڑ کر محل کی بھاگے . بوڑھے نے فورااس نوجوان کی زنجریں کھولی اسکو بھگا کر خود وہاں بیٹھ گیا .

سپاہی محل میں پہنچے تو بادشاہ وہی موجود تھا کھسیانے سے ہوکر وہ وہاں سے کھسک لیے قتل گاہ میں آے تو دیکھا سامنے بوڑھا بیٹھا ہے جب کہ نوجوان نو دو گیارہ ہوگیا تھا . سپاہی ساری صورتحال سمجھ گئے بوڑھے کو گرفتار کرکہ ساراہ ماجرہ سنا دیا بادشاہ نے جو اپنے مرنے کی جھوٹی حبر سنی تو غضبناک ہوکر تحت سے اٹھ کھڑا ہوا” اے بوڑھے تیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو نے میری موت کی جھوٹ خبر لوگوں میں پہنچا دی آخر میں نے تیرا بگاڑا ہی کیا تھابوڑھے نے نرم لہجے میں کہاعالیجاہ ! میرے ایک جھوٹ بولنے پہ آپ پر کوئی آنچ نہیں آئی .

لیکن میرے محسن نوجوان کی جان بچ گئ جس کو بے گناہ قتل کیا جارہا تھا جس وقت میں بھوکوں مررہا تھا تب اسی نوجوان کے دیئے ہوے صدقے سے میں نے اپنے لیے اور اپنے حاندان کے لیے غذا کا بندوبست کیا تھا . آج اسکو بے گناہ مصیبت میں دیکھکر مجھ سے رہا نھی گیا مجھ میں موجود انسانیت اور جوان مردی نے سر اٹھایا کہ میں اسکی جان بچاواسی مدد کی حاطر میں نے یہ حیلہ اپنایا”بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس نے اس نوجوان کی تعریف کی اور اس مقدمے کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیا، . خوش ہوکر اس بوڑھے فقیر کو انعام او اکرام دیا.اس نوجوان سے جب کوئی پوچھتا کہ تیری جان کیسے بچی؟وہ جواب دیتا”ایک حقیر سی رقم میری کام آئی جو اس سائل کو ضرورت کے وقت میں نے دی تھی”

..