قسمت


آج یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا۔ میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ کیوں کے مجھے میری کزنوں نے بہت ڈرا دیا تھا جب انکو پتا چلا کے میں نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا۔ “ دیکھنا وہاں تمہارے ساتھ کیا ہوتا ، وہاں نیو ایڈمیشن لینے والوں کو بہت تنگ کیا جاتا ہے ۔ سب کے سامنے انکا مزاق بنایا جاتا ہے ۔ پہلی نے آنکھیں
نچا نچا کے کہا ۔ “ اور کیا دیکھنا تمہارا کیا حال کرتے، تم نے دو دن میں ہی بھاگ آنا وہاں سے ، اسی لئے تو میں نے ایڈمیشن نہیں لیا وہاں میں تو اب پرائیویٹ ہی ایم اے کرو گی ۔ بھئی میرا کوئی دماغ خراب ہے جو وہاں جا کے دوسروں کا مزاق بنو۔“ دوسری نے اوور ایکٹنگ کی بھر پور کوشش کی، پر میں انکی باتوں میں نہیں آئی میں جانتی تھی یہ سڑتی ہیں مجھ سے جل ککریاں نہ ہو تو، میں انکی ساری چالبازیاں سمجھتی تھی ۔ “ اچھا یہ سب ہوتا وہاں اچھا کیا تم لوگوں نے بتا دیا، میری توبہ بھئی جو اب میں یونیورسٹی جاؤ ۔ وہ دونوں خوش ہوگئی میری اصلی ایکٹنگ دیکھ کر ۔ مٰیں دل ہی دل میں مسکراتی گھر واپس آکر کل یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگی، اور خیال میں ہی انکے حیران چہڑے دیکھ کر مسکرانے لگی جو کل میرے یونیوڑسٹی جانے پر حیران ہونے والے تھے ۔ “ایکسکیوزمی! کیا آپ مجھے ہسٹری پاڑٹ ون کی کلاس کہا ہو رہی بتائے گی؟ “ لڑکی نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا “ ہاں کیوں نہیں یہاں سے سیدھا جاکے رائٹ ہوجانا پھر left سامنے ہی آپکی کلاس نظر آجائے گی “ پھر وہ لڑکی اپنے دوستوں کی طرف منہ کر کے ہسنے لگی۔ “ آج کا بکرا مل گیا “ اسنے اتنی آہستہ آواز میں کہا کے ہانیہ سن نہیں سکی۔ یہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی تھی ہی اتنی بری کے اسے کسی نہ کسی سے پوچھنا ہی تھا ۔ یہاں اتنی بلاکس تھے ، جانے کونسے بلاکس میں اسکی کلاس ہونی تھی ۔ خیر وہ اسکے بتائے ہوئی جگہ پر جب پہنچی تب سامنے “ ٹائلٹ فار وومین “ لکھا دیکھ کر اسے اپنی کزنز کی باتیں یاد آگئی ۔ دل تو کیا کے اس لڑکی کو کھڑی کھڑی سنا کے آئے پر کیا فائدہ ؟ وہ رو دینے کو تھی تبھی اسے کسی نے پکارہ “ آپ پریشان لگ رہی ہیں “ ایک نرم سی آواز اسکے کانوں میں گونجی اسنے سر اٹھا کر دیکھا سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا ۔ جو دیکھنے میں شریف سا لگ رہا تھا ۔ لبوں پہ نرم مہربان سی مسکراہٹ لئے وہ اسے پہلی نظر میں ہی اچھا لگا۔ دل کیا اس انسان سے مدد لینے کو پھر دماغ نے کہا کسی پہ بھروسہ نہ کرنا ۔ “ مس میں آپ سے مخاتب ہوں “ اسنے مسکراتے ہوئے پھر پوچھا “ میں پریشان نہیں اور مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیے ، آپ کی تو بلکل نہیں “ اتنا کہ کر دو آنسو اسکے گالوں پر پھسل گئے “ ارے کیا بات ہیں بیٹا “ اسنے بیٹا کہنے پر حیرانی سے دیکھا “ کیا ہوا ارحان! “ وہ ابھی کچھ کہنے ہی والی تھی، اتنے میں ایک لڑکی نے آ کر اسے پوچھا ۔ “ یہ بچی ہمیں پریشان لگی ہم انکو پوچھ رہے تھے کہ کیا مسلہ ہے ، پر یہ ہمیں بتا ہی نہیں رہی، آپ ہماری مدد کری مہمل اور انکو پوچھے “ ۔“ میں پوچھتی ہوں “ مہمل نے پیار سے کہا ۔ پھر ہانیہ اس سے اپنی کلاس پوچھنے لگی۔ ارحان اور مہمل نے اسے ساری کلاسس دیکھا بھی دی تھی اور اسے یہ بھی کہا تھا کہ جب کبھی کچھ پوچھنا ہو ، یا کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتائے۔ وہ ان دونوں سے مل کر بہت خوش تھی ، اور یہ سوچ رہی تھی شاید کوئی نیکی کی ہوگی جو یہ دونوں ملے۔ پر اسے وہ لڑکی یاد آئی تو دل کیا جا کے ایک رکھو اسکے کان کے نیچے۔ خیر وہ اب اپنی کلاس لینے چلی گئی تھی۔ “ ارحان لگتا ہے آپ نے سب کی مدد کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے“ مہمل نے ارحان کو کہا “ ایسی بات بھی نہیں ہے اب ہم نے دیکھا تھا اس بچی کی آنکھوں میں آنسو اگر آپ نا آتی تو وہ شاید اپنی پریشانی نہ بتاتی اور یونہی پریشان ہوتی رہتی “ ارحان نے فکر مندی سے کہا وہ تھا ہی ایسا ہر کسی کے دل میں آسانی سے جگہ بنا لیتا تھا۔ آدھی سے زیادہ یہاں کی لڑکیاں اس کے پیچھے پاگل تھی ، مگر مہمل کی جگہ کوئی نہیں لے سکی ۔ ارحان کا چھوٹا سا دل تھا جو کسی کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سب وہاں اسکی اسی عادت کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے ۔ وہاں کے تیچرز بھی ارحان کو بہت پسند کرتے تھے ۔ سب تیچرز اور سٹوڈنٹس ارحان کو ارحان بھائی کہ کر بلاتے تھے۔ سب کے کہنے کی وجہ سے ہانیہ بھی ارحان بھائی کہنے لگ گئی تھی۔ وہ بہت جلد مہمل اور ارحان کی قریبی دوست بن گئی تھی ارحان کو بھی اپنی چھوٹی بہن کی طرح عزیز ہو گئی تھی۔ “یہ وہی ہے ،،،، وہی ہے بھائی یہ “ ہانیہ نے سویٹی کو دیکھتے ہی کہا سویٹی کو چاہے وہ یاد نہ ہو پر وہ اسے کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ “ کون ہے وہ کاکو“ ارحان ہانیہ کو پیار سے کاکو کہا کرتے تھے ۔ “ بھائی یہ وہی ہے جس نے مجھے اس دن غلط راستہ بتایا تھا ۔ آپ آئیے میرے ساتھ “ وہ ارحان کا ہاتھ پکر کے اسکے پاس لے گئی ۔ سوئٹی کی پشت ان کی طرف کر کے بیٹھی تھی ۔ “ اہ ارحان آپ کیسے ہیں آپ “ وہ ارحان کا ہاتھ پکر کے انکے سامنے آ کھری ہوئی جسے دیکھتے ہی سویٹی نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے کہا کیوں کے ارحان کم کم ہی انکے گروپ کی طرف آیا کرتا تھا ،جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ سویٹی اسے پسند کرتی ہے ۔ یہ حال بس سویٹی کا ہی نہیں یونیورسٹی کی آدھی سے زیادہ لڑکیاں ان پر مرتی تھی ۔ ایک تو وہ ہینڈسم تھے دوسرا انکا اخلاق بے حد اچھا تھا ۔ “ اللہ کا شکر ہے ، سویٹی آپ کیسی ہیں“ ارحان نے جوابا پوچھا “ میں پہلے جیسی خوبصورت “ سویٹی نے کہا ، وہ ایسی ہی تھی خود کو دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی سمجھتی تھی ، اسکے جواب میں ارحان نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا ۔ “ یہ لڑکی کون ہے ارحان “ سویٹی نے ہانیہ کو دیکھتے ہی پوچھا ، “ یہ کاکو ،،، آئی مین یہ ہانیہ ہیں اور آپ نے ہماری بہن کو تنگ کیوں کیا تھا ؟ جب انکا پہلا دن تھا آپنے انکو کلاس بتانے کے بجائے ٹوئلٹ کا راستہ دیکھا دیا ۔ چلے سوری کرے میری سسٹر کو “ والی نے سویٹی کو سر سے اشارہ کر کے سوری کرنے کا کہا کیوں کے وہ ہانیہ کو اپنی حقیقی بہن سجھنے لگ گئے تھے اور سویٹنی نے سوری نہیں کرنی تھی اس لئے انہیں اشارہ کرنا پرا ہانیہ کی گردن فخر سے اکڑ گئی تھی ۔ “ ایم ساری ،،،،فرینڈز “ سوئٹی نے دوستی کے لئے آگے ہاتھ بھرایا ہانیہ نے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا وہ ارحان کی طرف دیکھنے لگ گئی۔ “ ہاتھ آگے برہائے کاکو “ ہانیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے کر دیا ۔ ایسے ہی ان سب کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی ، یہ لوگ ہر روز ملتے خوب مستی کرتے اور ساتھ پڑھائی بھی کرتے ایسے ہی بہت سارے دن گزر گئے ۔ پھر ایک دن ہانئہ اور ارحان کینٹین میں بیٹھے سموسے اور پیپسی کی بوتل کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کر رہے تھے ساتھ سموسہ پارٹی بھی ایجوئے کر رہے تھے ۔ “ کاکو بھائی ایک بات پوچھے آپ سے “ ارحان نے کچھ سوچتے ہوئے اسے کہا “ بھائی پوچھ کے پوچھے گے کیا؟ جو بھی بات ہوتی ہے کہ دیا کرے “ ہانئہ نے مسکراتے ہوئے پیار بھری لیجے میں کہا ،،، “ کاکو کو یہاں سب سے اچھی لڑکی کون سی لگتی ہے ؟ “ “ مہمل آپی “ اسنے سموسہ کھاتے ہوئے مصروف سے انداز میں جواب دیا ۔ “ سویٹی نہیں “ ارحان نے نا جانے کیا سوچتے ہوئے سویٹی کا پوچھا۔ “ نہیں “ اسکا سموسہ کھاتا ہاتھ کچھ لمحوں کے لئے ساکت ہوا پر وہ پھر سمبھل کر نہیں کہ پائی ۔ “ کیوں ؟ “ والی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ “ وہ ہر ٹائم ارحان ارحان کرتی رہتی ہے بھائی ، وہ ارحان ارحان کرنا چھوڑ دے اس میں کوئی برائی نہیں ہے بھائی “ وہ اسکی بات سن کے زور سے قہقہ مار کے ہنسنے لگ گئے ۔ “ آپ ہنس رہے ہیں ۔ اور جب وہ ایسا کرتی مجھے چڑ ہوتی ہیں ۔ بھائی آپ شادی کرلے نہیں تو منگنی کر لے ، تا کہ سب لڑکیوں کو پتہ چل جائے کہ اب ارحان انکا نہیں ہو سکتا۔“وہ سموسہ چھوڑ چھاڑ کے اب سیریس ہو کے بیٹھ گئی تھی ۔ “ کاکو اب ماما بھی کہتی ہیں شادی کر لو ، پر بھائی نے ابھی شادی نہیں کرنی ، ہاں اگر کاکو بھائی کے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈے گی تو وہ ضرور کرے گے ، کاکو جس سے کہے گی بھائی اسئ سے شادی کرے گے ۔“والی نے شرارت سے کہا ۔ “ سچی بھائی ؟ اگر یہ بات ہے تو مہمل آپی آپ کے لئے پرفیکٹ ہیں ؟ “ ہانیہ نے خوشی سے اپنی موسٹ فیورٹ آپی کا نام لیا ۔ “ کاکو یونیورسٹی کے علاوہ جہاں کہوگی، بھائی وہی شادی کرے گے۔ “ ارحان یہ کہ کر ایکسکیوز کرتا اٹھ کے چلا گیا۔ “ بھائی مہمل آپی اچھی ہیں۔ “ ہانیہ نے انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر منہ پھلا کر مسنوئی ناراضگی سے کہا ۔ “ وہ بہت اچھی ہیں کاکو! بھائی جانتے ہیں ، بس یہ کہو گا وہ بھائی کی کبھی نہیں ہو سکتی ۔ ابھی ہم چلتے ہیں امید کرتے ہیں کاکو اب بھائی سے اس بارے میں بات نہیں کرے گی ۔“ والی نے برے پیار سے اسے جاتے ہوئے سمجھا دیا اور وہاں سے چلا گیا ۔ ارحان مہمل سے بہت محبت کرتا تھا ۔ یہ بات اسنے مہمل سے بہت بار کہنے کی کوشش کی ، مگر مہمل نے ہمیشہ کوئی ایسی بات کر دینی ہوتی تھی جس سے یہ بات بیچ میں ہی رہ جاتی ۔ ارحان کو لگتا وہ جان بوج کے ایسا کرتی اس لئے وہ دل کی بات دل میں ہی دبا لیتے ۔ مگر ہانیہ ان دونوں کے دلوں کا حال سمجھ گئی تھی اور وہ دل سے چاہیتی تھی کہ انکی محبت کو کنارہ مل جائے ورنہ یہ سمندر کی لہروں کی طرح دل میں بھٹکتی رہے گی ، اور دل کا سکون برباد کر دے گی ، اور ہلچل مچائے رکھے گی ۔ پھر سالانہ پیپر شروع ہوگئے سب اپنی ایگزام میں بزی ہو گئے ۔ پتہ ہی نہیں چلا دو سال کیسے گزر گئے ہانیہ بہت خوش تھی کیونکہ اسے یہاں سے ارحان اور مہمل جیسے اتنے اچھے دوست ملے ۔ سب کے ہی ایگزام بہت اچھے ہوئے۔ یونیورسٹی کے بعد بھی ہانیہ کا ارحان اور مہمل سے موبائل پر رابطہ تھا ۔ 23 فروری 2017 جب وہ سو کر اٹھی تو عادت کے مطابق سب سے پہلے اسنے اپنے موبائل کو تکئے کے نیچے تلاش کیا۔ کچھ تک و تد کے بعد موبائل اسکے ہاتھ لگ ہی گیا ، اسکے لبوں پر دھیمی سی مسکان آ گئی اور مونائل آن کر کے سب سے پہلے ہمیشہ کی طرح اسنے ان باکس ہی چیک کیا “ سب سے پہلا میسج مہمل آپی کا تھا اسنے جلدی سے مسج کو کھولا۔ “ بھالو ،،، ًًمجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہیں فری ہو کر مجھے کال یا مسج کرنا “ مہمل ہانیہ کو پیار سے بھالو کہتی تھی ۔ ہانیہ نے باقی مسجیز دیکھ کر موبائل سایڈ ٹیبل پر رکھا اور فریش ہونے باتھ میں چلی گئی ۔ فرییش ہو کر وہ ناشتہ کرنے چلی گئی ۔ جب واپس آئی تو اسے مہمل کا خیال آیا اور جلدی سے اسنے موبائل اٹھایا تاکہ مہمل آپی سے بات کر سکے پر سکرین پر دو اور میسج آئے ہوئے تھے ،جب اسنے وہ اوپن کئے تو وہ ارحان بھائی کے مسج تھے ، وہ مسکرا کر پڑھنے لگی ۔ جو نہی وہ مسج پڑھتی گئی اسکے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوتی گئی ۔ “ کاکو کیسی ہیں ؟ بھائی ٹھیک نہیں ہیں کاکو! بھائی کل بہت رؤئے “ یہ ایک مسج تھا جسے اسنے پڑھا پھر وہ دوسرا مسج دیکھنے لگی ۔ “ کاکو ایک بات بتائے جسے آپ سب سے زیادہ چاہتے ہیں وہی آپ کو ہر بار ایگنور کرے تو کیسا لگے گا ؟ وہ آپ کی کسی بات کو اہمیت نہ دے تو کیسا لگے گا ؟ وہ یہ مسج پڑھ کر فورا جواب دینے لگ گئی ۔ اس دوران وہ مہمل کے مسج کو بھول چکی تھی ۔ “ بھائی کیا ہوا ہیں ؟ اور آپ کیوں روے ہیں ؟ اور کون ہیں وہ جس نے آپ کو اگنور کیا مجھے بتائے میں اسکو پوچھتی ہوں ۔ “ کاکو ہم نہیں جانتے وہ ایسا کیوں کرتی ہیں پر ہم اتنا ضرور جان گئے ہیں کہ اب وہ ہماری کبھی نہیں ہو سکتی۔ ہم کسی کام سے باہر جا رہے ہیں آکر بات کرتے ہیں ۔ اپنا بہت خیال رکھنا ، اللہ حافظ ۔“ “ ٹھیک ہے بھائی اللہ حافظ ارحان سے بات کر کے وہ پریشان ہو گئی تھی وہ اسی بارے میں سوچ رہی تھی جب اسے مہمل کا خیال آیا اور اسنے فورا اسے مسج کیا۔ کچھ دیر بعد اسکے موبائل پر بپ ہوئی ۔ وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی بال بنا رہی تھی، تب اسنے موبائل اٹھا کر دیکھا تو مہمل کا مسج تھا اسنے جلدی سے اوپن کیا۔ “ بھالو ہاں مجھے یہ کہنا تھا کہ ، کل میں نے ارحان کو پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ پوری لائف گزارنا چاہے گا؟ “ اسکے لئے آج حیرتوں کا دن تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ ان دونوں میں کچھ نہ کچھ خاص ہے پر وہ پیار ہوگا اسنے سوچا نہیں تھا ۔ “ تو بھائی آپی کی بات کر رہے تھے ؟ “ اسنے خود سے سوال کیا وہ ہیر برش سائڈ پر رکھ کے مسج ٹائپ کرنے لگی ۔ “ آپی آج بھائی بہت پریشان تھے روئے بھی وہ ۔ کیا آپ انکو اگنور کرتی ہیں ؟ اور جب آپنے انکو پوچھا تب انہوں نے کیا کہا؟ “ وہ مسج ٹائپ کر کے بال بنا کر اٹھ کے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ “ بھالو ارحان نے کہا کہ ، مہمل دل کرتا ایک تھپڑ لگاؤ آپکے زور سے ، اتنا دیر سے کیوں کہا پہلے کیوں نہیں کہا؟ پھر رہنے لگ گئے ۔ بھالو تم ہی بتاو میں نے لڑکی ہو کر کہا اسنے کیوں نہیں کہا ۔ اور میں اسکو اگنور کرتی تھی بہت پہلے اب تو کبھی نہیں کیا ۔“ موبائل کی بپ ہونے پر اسنے جب دیکھا تو مہمل کا یہ مسج آیا تھا ۔ “ آپی اب میں بات کرتی ہوں بھائی سے آپ پریشان نہ ہوں “ وہ مھمل کو مسج کر کے اب ارحان کو کال کرنے لگ گئی پر کال اٹینڈ نہیں ہوئی اسنے پھر اسے مسج کر دیا۔ تب تک مہمل کا مسج آ چکا تھا ۔ “ نہیں بھالو اب کوئی فائدہ نہیں ارحان کا رشتہ اسکی ماموں کے ہاں پکا ہو گیا ہے ۔ میں نے دیر کردی بھالو ! اب کچھ نہیں ہو سکتا ، وہ اپنی امی سے بہت محبت کرتے ہیں وہ کبھی بھی یہ رشتہ تور کے انکا دل نہیں توڑے گے “ وہ مسج پڑھ کے فورا جواب ٹائپ کرنے لگی ۔ “ آپی اب میں نے انکو مسج کر دیا فری ہوتے ہی بات کرے ، کال کی تھی اٹینڈ نہیں ہوئی ۔ رہی بات رشتے کی جانتی ہوں وہ کبھی انکار نہیں کرے گے پر میں انکی امی سے بات کرو گی سب ٹھیک ہو جاے گا ۔ آپ پریشان نہ ہوں “ ہانیہ مسج کر کے جواب کا اینتظار کرنے لگی ۔ کچھ لمحوں بعد ہی اسکے موبائل کی بپ ہوئی ۔ “ مجھے لڑکے والے دیکھنے آ رہے ہیں پھر بات ہوگی بھالو۔ ارحان کا مسج آئے تو بتانا“ ہانیہ اوکے کا مسج اسے کرتی اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی ۔ ادھر ارحان ڈرائیو کے دوران مسلسل مہمل کی بات ہی سوچی جا رہا تھا۔ “ ارحان کیا میرے ساتھ پوری زندگی گزارو گے“ یہ الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے اور اسے کچھ سنائی نہًٰں دے ریا تھا ۔ رات کا اندھیرا تھا کہ بھرتا ہی جا رہا تھا یہ اندھیرا اسکی زندگی سے کالا تا نہیں تھا ۔ آنسو اسکے چہرے کو غسل دے رہے تھے ۔ وہ جس سے وہ خاموش محبت کرتا تھا وہ اسے ملی بھی کب جب وہ کسی اور کے ساتھ جر چکا تھا ۔ اسکا وجود چھلنی ہو گیا تھا۔ دل تھا کہ درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔ کہ اچانک اسکی آنکھوں کے سامنے تیز روشنی آئی اور تیز ہارن کی آواز بھی ، اسنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اور پھر زور دار دھماکہ ہوا ۔ اسکے حواس مجتما ہونے میں کچھ لمحے لگے ۔ اسکو جو پہلا احساس ہوا وہ درد کا تھا ۔ اسکے پورے جسم میں شدید قسم کا درد ہو رہا تھا ۔ اسے اپنے چہرے پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا ۔ وہ خون تھا شائد اسنے دیکھنے کے لئے اپنے بازو کو حرکت دی، مگر یہ کیا بازو کسی وزن دار چیز کے نیچے تھا ۔ اسکا پورا وجود ہل نہٰں ریا تھا بس اسکی آنکھیں حرکت کر رہی تھی ۔ اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی ماں کا چہرہ آیا وہ امی کہ کر رونے لگا پھر اسے مہمل کا مسکراتا چہرہ نظر آٰیا وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا ۔ کچھ دیر بعد اسے لوگوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دی ۔ “ یہ زندہ ہے ۔ زندہ ہے یہ “ کوئی چیخ رہا تھا پھر اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔ کچھ دن یونہی گزر گئی ارحان کا کچھ پتا نہیں تھا۔ مہمل بار بار ہانیہ کو کبھی کال کبھی مسج کر کے ارحان کا پوچھتی مگر دونوں ہی کو ارحان کا نہ مسج نا کال آٰئی پھر دونوں نے سوئٹی کو پوچھا ، پر سویٹی بھی اسکی غیر موجودگی سے لا علم تھی ۔ مہمل ہر روز اسکو مسج کرتی مگر کوئی جواب نہیں آتا ۔ ارحان ایسا نہیں تھا وہ ضرور کسی مشکل می ہوگا جو جواب نہیں دیتا ۔ اسی دوران مہمل کا رشتہ بھی پکا ہوگیا پر ارحان کا کچھ پتا نہ تھا ۔ 14 مارچ کو مہمل جب مہمل اپنی منگنی کی شاپنگ سے واپس آئی تو اسنے گھر آکر اپنا موبائل دیکھا تو اس پر ارحان کا مسگ دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ اسنے جلدی سے مسج پڑھنا شروع کیا ۔ “ مہمل کیسی ہو ۔ 23 فروری کو میرا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔میرے سیدھے بازو اور بیک بون اور گردن پر چوٹ آئی ، بازو کا اپریشن کامیاب ہوگیا ۔ پر بیک بون اور گردن کا آج ہے دعا کرنا اپریشن ٹھیک ہو ۔“ مسج پڑھتے ہوئے مہمل کی آنکھوں میں آنسو آگئے اسنے فورا کال کی پر نمبر آف تھا ۔ اسنے ہانیہ کو بھی بتایا اب دونوں اسکی زندگی کے کئے دعا گو ہیں ۔ مہمل اور ارحان دونوں اب کبھی ایک نہیں ہو سکتے کیوں کے دونون کی بات پکی ہو چکی ہے ۔ انسان قسمت کے ہاتھوں کتنا مجبور ہے کہ وہ اس سے لڑ نہیں سکتا ۔