حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی کہتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ پیرس سے نیو یارک جانے کا موقع ملا، میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک انگریز خاتون آ کر بیٹھ گئی، اس کے ساتھ ایک بچی تھی، جس کی عمر تقریباً دو سال تھی، میں کتاب پڑھنے میں مشغول رہا، تھوڑی دیر بعد ائیرہوسٹس نے کھانا لا کر پیش کیا،۔چونکہ سفر کےدوران
ادھر ادھر کھانے سے نقصان ہوتاہے اس لیے میں نے وہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا، مگر اس خاتون نے کھانا لے لیا، چاول پکے ہوئے تھے، وہ ایک چمچ میں تھوڑے سے چاول لے کر بچی کے منہ میں ڈالتی اور جب بچی چاول کھا لیتی تو ماں اسے کہتی، Say Thank you (کہو، آپ کا شکریہ)، وہ بچی معصوم زبان سے کہتی، تھینک یو (جی، آپ کا شکریہ) وہ ہر لقمے پر اسے تھینک یو کہلواتی،۔میں چونکہ قریب ہی بیٹھاتھا اس لیے اگرچہ میں دیکھ نہیں رہا تھا مگر پتہ چل رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے، میں نے اندازہ لگایا کہ اس کھانے کے درمیان تقریباً پینتیس مرتبہ اپنی بچی کی زبان سے تھینک یو کا لفظ کہلوایا، اب یہ بتائیں کہ یہ شکر ادا کرنے والی بات اس بچی کی گھٹی میں پڑ گئی یا نہیں پڑی، آپ مجھے بتائیں کہ کون سی مسلمان ماں ہے جو اپنے بچے کو یہ سبق دیتی ہے، روایت ہماری تھی اور اسے اپنا غیروں نے لیا اور ہم اس سے محروم ہو گئے۔ اب یہ بتائیں کہ یہ شکر ادا کرنے والی بات اس بچی کی گھٹی میں پڑ گئی یا نہیں پڑی، آپ مجھے بتائیں کہ کون سی مسلمان ماں ہے جو اپنے بچے کو یہ سبق دیتی ہے، روایت ہماری تھی اور اسے اپنا غیروں نے لیا اور ہم اس سے محروم ہو گئے