ایک واقعہ اکبر الہ آبادی مرحوم کا ہے کہ ان کا بچہ بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے لوٹا تو یہ سادہ لباس پہنے بچےکو لینے ایئرپورٹ پر پہنچے تو بیٹے کےساتھ آئے دوستوں نے جب ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ تو بچے کو یہ بتاتے ہوئے شرم آئی کہ میں پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک دیہاتی کو والد کہوں.انگلش میں کہنے لگا کہ یہ میرا نوکر ہے.
جس پر اکبر آلہ آبادی مرحوم نے تاریخی شعر کہا تھا کہہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں جن کو پڑھ کر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں دو چار لفظ انگلش یا سائنس کے کیا آجاتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اس کامیابی میں والدین کی محنت بھی شامل ہے جس پر ان کا مشکور ہونے کے بجائے
ان کو خدا کی پناہ پاگل و ناجانے کیا کیا کہتے ہیں. تو آئیے اپنے نفس کو یہ باور کروائیں کہ جس ماں باپ نے ہمیں گویائی کا طریقہ سکھایا، انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور سب سے بڑھ کر ہمارے دنیا میں آنے کا سبب بنے ان کے سامنے ہماری کچھ حیثیت نہیں ہے اپنی تمام تر عقلمندی کو خاک میں ملادیں ان کے آگے خود کو ویسا ہی خیال کریں جیسا کسی کہ بچپن میں کیا کرتے تھے جب کوئی چیز دیکھتے یا سنتے تو ان سے پوچھا کرتے کہ یہ کیا ہے؟
تاکہ ہمارے بچے ہمارا لحاظ کریں ورنہ جس طرح زمانہ جدت کی طرف جا رہا ہے آج اگر ہم موبائل، کمپیوٹر و دیگر چیزیں استعمال کرنے میں ماہر اور ہمارے والدین ان سے ناآشنا ہیں تو کل کلاں اس سے جدید آلات ایجاد ہوں تب ہم ان سے نابلد اور ہمارے بچے ان کے پرزے پرزے سے واقف ہوں گے. اللہ مجھ سمیت ہر ایک کو والدین کی قدر اور خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے…آمین
..