فتی محمد حسنؒ نے لاہور میں جامعہ اشرفیہ کی بنیاد رکھی، شروع میں وہاں چھوٹی سی مسجد تھی اور چھوٹا سا جامعہ تھا، ان کے یہاں ایک ایسے عالم تھے جو حضرت مدنیؒ کی طرف کچھ میلان رکھتے تھے، اسی طرز پر جلسے اور سیاست..
. اور ان کا مزاج ذکر والا تھا، وہ نیک تھے، انہوں نے سوچا کہ اکٹھا رہنے میں آپس میں کہیں کوئی تنازعہ نہ کھڑا ہو جائے، اختلاف رائے نہ بڑھ جائے،لہٰذا ایک سال مکمل ہونے پر انہوں نے اسی محلے میں ایک دوسرے جامعہ کی بنیاد رکھ دی.جب انہوں نے نئے جامعہ کی بنیاد رکھی تو لوگ بڑے غصے میں آ گئے کہ اگر نیا جامعہ بنانا ہی تھا تو کہیں دور بنا لیتے،
اسی جگہ، قریب میں نیا جامعہ کھولنا مناسب تو نہیں.اس سلسلہ میں مفتی محمد حسن کے ایک صاحبزادے نے اپنا ایک واقعہ مجھے خود سنایا، فرمانے لگے کہ میں کسی کام کے لیے جا رہا تھا تو ایسے ہی میں نے اپنے والد صاحب سے کہا: ابا جی! آپ نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟ ابا جی نے پوچھا: بیٹا! کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا: امی نے کام سے بھیجا ہے، فرمایا: تم وہ کام کرکے آؤ، پھرمیں آج تمہیں اخلاص کا درس دوں گا.جب میں وہ کام کرکے واپس آیا تو بیٹھ گیا اور عرض کیا: ابا جی! بتائیں، تو والد صاحب نے مجھ سے پوچھا: یہ بتاؤ کہ اگر تمہارے سر پر کسی چیز کا اتنا بوجھ ہو کہ تم سے اٹھایا نہ جا رہا ہو، حتیٰ کہ گردن ٹوٹنے کے قریب محسوس ہو، تم انتہائی مشقت کے ساتھ وہ بوجھ لے کر جا رہے ہو،
اور ایسے وقت میں کوئی دوسرا بندہ آ جائے اور یہ کہے کہ تم آدھا بوجھ مجھے دے دو میں اپنی ذمہ داری سے منزل پر پہنچاؤں گا، تو اب بتاؤ کہ وہ تمہارا دوست ہو گا یا دشمن ہو گا؟ میں نے کہا: حضرت! وہ دوست ہوگا،تو ابا جی نے فرمایا: دیکھو بیٹا! یہ اتنا بڑا شہر تھا اور اس میں یہ ایک دارالعلوم تھا اور اتنے بڑے شہر کی مسؤلیت کا بوجھ صرف ہمارے سر پر تھا اب ایک دوسرا مدرسہ بن گیا ہے اور یوں قیامت کے دن جو پوچھا جائے گا اس کا بوجھ تقسیم ہوگا، اب ان بوجھ تقسیم کرنے والوں کو دوست سمجھیں یا دشمن سمجھیں؟سبحان اللہ! کتنے بڑے مسئلے کو کتنے پیار سے حل کر دیا، اس کو اخلاص کہتے ہیں.
..