حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کو اللہ نے ایسا درد عطا فرمایا تھاکہ وہ چاہتے تھے کہ فرنگی یہاں سے دفع ہو جائے اور ہم اپنے دین والی زندگی کو عمل میں لا سکیں، چنانچہ وہ اس کے لیے بہت متحرک رہتے تھے، اور ان کی طبیعت ایسی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی مہمان آتا تھا تو وہ مہمان کو بڑے پیار سے رکھتے تھے، اس کی خوب خدمت بھی کرتے تھے اور اس کو بڑی محبت دے کر بھیجتے تھے.حضرت اقدس تھانویؒ کی طبیعت میں اصلاح کا پہلو غالب تھا، جو طالب بھی آتے تھے حضرت ان پر سختی فرماتے تھے، کیونکہ جب تک سختی نہ ہو تب تک اصلاح نہیں ہوتی.
حضرت مرشد عالمؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’’دب نہ ہو تو ادب پیدا نہیں ہوتا‘‘ اس لیے سختی کرنی پڑتی ہے، مگر مشائخ کی سختی بھی اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے. چنانچہ حضرت اقدس تھانویؒ کے پاس جب کوئی آتا تھا تو اس کو بات سمجھائی جاتی تھی اور آگے سے وہ نہ مانتا تو حضرت اس کا بستراٹھا کر باہر نکال دیتے تھے،
جیسے حضرت مجذوب سے کوئی بات ہوگئی تھی تو حضرتؒ نے فرمایا کہ تم اپنا بستر اٹھاؤ اور یہاں سے چلے جاؤ، مگر وہ طالب صادق تھے، انہوں نے سوچا کہ حضرت نے تو مسجد سے ہی نکالا ہے، مسجد کے باہر تو میں بیٹھ سکتاہوں، چنانچہ وہ دروازے کے سامنے بیٹھ گئے اور جب دروازہ کھلتا تو اپنے شیخ کی زیارت کر لیتے اور بیٹھے یہیں رہتے تھے، اسی طرح کئی دن گزر گئے، وہ وہاں سے گئے نہیں، ایک دن حضرت بڑے حیران ہوئے کہ میں نے اسے بھیج بھی دیاتھا اور یہ اتنے دنوں سے دروازے پر ہی بیٹھا ہے، حضرت نے اپنے ایک خادم سے کہا: جا کر اس سے پوچھو کہ یہ چاہتاکیاہے؟ حضرت مجذوب شاعر تھے، چنانچہ انہوں نے جواب میں ایک شعر لکھ کر بھیجا:ادھر تو در نہ کھولے گا ادھر میں در نہ چھوڑوں گا..حکومت اپنی اپنی ہے ادھر تیری ادھر میری.حضرت کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ اسی وقت ان کوبلایا اور ان کی غلطی کو معاف کر دیا. ادھر حضرت مدنیؒ آنے والے مہمانوں کے ساتھ بہت پیار و محبت سے پیش آتے تھے، ایک آدمی حضرت مدنیؒ کے پاس آیا، حضرتؒ نے اس کو کھانا بھی کھلایا، پاس بھی بٹھایا اچھی اچھی باتیں بھی سنائیں اور رات کو جب سونے لگاتو حضرت نے اس کے پاؤں بھی دبائے،جب اس نے بے نفسی کا یہ عالم دیکھا تو کہنے لگا:
حضرت! یہ ہوا دین، آپ تو بندوں کے ساتھ ایسا پیش آتے ہیں ان پرقربان ہونے کو دل چاہتا ہے اور اگر حضرت تھانویؒ کے پاس چلے جائیں تو وہاں تو یوں لگتا ہے کہ بس لٹھ لے کر بیٹھے ہیں اور وہاں تو بڑی سختی ہوتی ہے.دیکھیں! اختلاف رائے ہو تو عام طور پر بندہ تلی لگا دیتا ہے، اگلے دن تھوڑی سی بات کی اور اس کو بھڑکا دیا، مگر نہیں،یہ ہمارے اکابر کا اخلاص تھا کہ جب اس نے ایسی بات کی تو حضرت مدنیؒ نے فورا کہا: بھئی نہیں، ایسی بات نہیں ہے، تم معاملے کو سمجھے ہی نہیں، اس نے پوچھا: حضرت معاملہ کیاہے؟ فرمایا جو بڑے سرجن ہوتے ہیں وہ انسان کے اندر سے پیٹ وغیرہ نکال کر چیر دیتے ہیں اور اس کو نچوڑ کر نکالتے ہیں، اس وقت بندے کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اورجب وہ بندہ کمپاؤنڈر کے پاس آتا ہے تو کمپاؤنڈر اس پر مرہم لگا کر پیار سے اس کو بند کر دیتاہے، حضرت کی کیفیت سرجن کی مانند ہے اور میری کیفیت ایک کمپاؤنڈر کی مانند ہے، یہ اخلاص تھا ہمارے اکابر میں.
..