وہ گندی عورت نہیں تھی لیکن اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی اور عورت ہمیشہ مظلوم ہوتی ہے چاہے وہ مشرق کی روایت میں مقید ہو یا مغرب کی آزادی میں قید جی ہاں یہ قید ہی تو ہے کہ جو چار دیواری میں سکون سے رہنے کو جرم ہی بنا دے کیا ہوا کہ کوئی شہزادی بن کر گھر کی پرسکون فضاء میں آرام کے چند سانس لےسکے اور کیوں اسے مجبور کیا جاوے کہ وہ سڑکوں کی خاک چھانے …..اسے یاد تھاکچھ کچھ تھوڑا تھوڑاگرجے کی دیواروں سے اٹھتا ہوا الوہی نغمہ اور وہ خود سفید لباس میں ملبوس جیسے آسمان سے کوئی حور زمین پر اتر آئی ہو اور اس کے لبوں پر جاری بائبل کی مقدس آیات بس یہی واحد یاد تھی اسکی اپنے رب سے تعلق کی ……..پھر وہی افرا تفری تیز سے تیز تر ہوتی ہوئی زندگی کہ جس کا ساتھ دیتے دیتے سانسیں مدھم پڑنا شروع ہو جائیں اور موت کی آہٹ قریب محسوس ہونے لگے ………جاری ہے .
باپ کی موت اور ماں کا کم عمری میں ہی اسے اپنے کسی یار کیلیے چھوڑ جانا کیا کرتی کہاں جاتی اور پھر اس کی ابھرتی ہوئی جوانی کلی کو پھول بننے میں آخر کتنی دیر لگتی ہے ……..ہاں اس کا اثاثہ اور کیا تھا اس کا خوبصورت سانچے میں ڈھلا ہوا بدن حالات کے بے رحم ہاتھوں نے اسے ایک ” گندی عورت ” بنا دیا تھا ایک سٹرپر جس کا کام شراب خانے میں آنے والوں کو اپنی بے لباسی سے محظوظ کرنا ہی تو تھا ہاں کبھی کبھی وہ نیند میں سے جاگ اٹھتی وہ خواب جس میں وہ سفید لبادہ پہنے چرچ کی روحانی فضاء میں بائبل کی مقدس آیات پڑھ رہی ہوتی لیکن یہ خوبصورت یاد اب اسکیلئے ایک بھیانک خواب ہی تو تھی کہ جس سے وہ پیچھا چھڑانا چاہتی تھی ……..اے میرے مالک کب تک آخر کب تک اس غلاظت میں پڑے رہنا میرا مقدر ہے
………پھر ایک دن کچھ عجیب ہوا گو کہ سورج اسی طرح نکلا اور غروب ہوا تھا چاند کی رنگت ویسی ہی تھی رات کی سیاہی ویسی ہی تو تھی لیکن وہ کون لوگ تھے بڑی بڑی داڑھیوں والے ڈھیلے ڈھالے سفید چمکتے ہوے پاکیزہ لبادوں میں ملبوس جیسے حضرت مسیح کے مقدس حواری بائبل کے صفحات سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں سامنے آن کھڑے ہوں ہر کوئی مبہوت تھا بے لباس سٹرپرز قریب پڑی میزوں سے چادریں کھینچ کر اپنے ننگے بدن چھپا رہی تھیں یہ کون لوگ تھے کہ جن کے آتے ہی حیاء بھی کہیں سے باہر نکل آئی تھی جو شاید کتنی ہی صدیوں سے انکے اندر کہیں دفن تھی یہ کون لوگ تھے کہ جنکی آمد سے مردے زندہ ہو رہے تھا ………جاری ہے . اور پھر ان میں سے ایک شخصیت آگے بڑھی اور اس نے الله کی شان بیان کرنا شروع کی الفاظ کا دریا ایسا کہ بہتا ہوا سیدھا دل کے سمندر میں گرتا چلا جا رہا تھا اور بہاؤ ایسا کہ کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہ رہے یہ کیسا عجیب معاملہ تھا کہ پہلی بار دل کی سیاہی دھلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی قلب کے مندر میں لگے بت گرتے چلے جا رہے تھے اور لگتا تھا کہ جیسے کوئی مقدس زمین ہو جو کہیں کسی بنجر خطے کے اندر دبی پڑی ہو ہر طرف نور ہی نور تھا اور کانوں میں صرف ایک آوازالله اکبر الله اکبر ……….لگتا تھا کہ بہت ہی پرانی بات ہوئیاور ……اب تو یہ سیاہ لبادہ اسے اپنے جسم کا حصہ ہی محسوس ہوتا تھا اس کی ٹھنڈک ایسی کہ جیسے روح تک اتر جاوے اس سیاہ لبادے میں ملبوس وہ خود کو ایسا تصور کرتی کہ جیسے کعبے کی مقدس دیواروں سے سیاہ غلاف لپٹا ہوا ہو وہ عریاں جسم کہ جو کبھی لباس کا عادی ہی نہ تھا آج کسی انجانے کی نگاہ کے سامنے آنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا یہ کیسی تبدیلی تھی.جاری ہے .