ٹرپل ایکس فلمیں یہودیوں کی بےحد سنجیدہ سازش (پارٹ ١)


پورن گرافی عصر حاضر کا ایک بہت بڑا ناسور ہے۔ یہ وہ زہر ہے جس کا کوئی تریاق دریافت نہ ہو سکا۔لوگوں کے رویے اور انداز زندگی اسی کی بدولت جنسی خود غرضی کی بھینٹ چڑھے ……!

ہم اکثر سوچتے ہیں آخر یہ کھیل شروع کب ہوا …..؟

اسکا تاریخی پس منظر کیا ہے …..؟

اس کے بنیادی محرکات کیا تھے …..؟

آج کی تاریخ میں اس میں کیسی جدتیں لائی جارہی ہیں …..؟

تاریخ میں سب سے پہلے پورن گرافی بطور ہتھیار سلطان صلاح الدین ایوبی (1137. 1193) کے دور حکومت میں ہوئی۔ اسے بطور ہتھیار سب سے پہلے صلیبی بادشاہوں نے استعمال کیا۔ کہانی کچھ یوں ہے صلیبی ہر میدان میں مسلمان نوجوانوں کے ہاتھوں شکست فاش سے سخت پریشان تھے۔ اسلامی افواج صلیبی جمیت اور متحدہ قوتوں پر بھاری ثابت ہورہی تھیں۔ صلیبیوں کی سوچ کا دھارا اس وقت بدلا جب ڈیڑھ لاکھ مسلمان فوج نے بحر اوقیانوس کے ساحلوں پر پندرہ لاکھ صلیبی جنگجو لاشوں کا ڈھیر کر دیئے۔ اس موقع پر متحدہ صلیبی فوج کا بادشاہ رونالڈ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ آخر ایک بڑی میٹنگ کا انعقاد ہوا۔ اس میٹنگ میں مسلم اور صلیبی افواج کا موازنہ کیا گیا۔ معلوم ہوا مسلمان رات بھر سجدوں میں روتے ہیں۔ اور دن بھر میدانوں کی للکار ہوتے ہیں ان کے اندر ایک دنیا آباد ہے جسے وہ ایمان کہتے ہیں۔ یہی ایمان انھیں دنیا کے ہر خوف و ڈر اور لذت پرستی سے بہت اوپر، انھیں بہترین جنگجو بنائے رکھتا ہے۔ جبکہ صلیبی فوجی رات بھر زنا کی محفلوں اور دنیا کی رنگ رلیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ لہذا دنیا چھوڑ کر ایک نئے جہاں کاخوف انھیں شکست فاش سے دو چار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ دوران جنگ مسلمان فوجیوں کی آنکھوں سے جو وحشت ٹپکتی ہے۔ وہ صلیبی قوتوں پر خوف طاری کر دیتی تھی۔ اسکے ساتھ #نعرہ_تکبیر کی فلک شگاف صدائیں اور مسلمانوں کا اپنی اپنی جگہ پر فولاد بن جانا بھی صلیبیوں کیلئے ایک مسئلہ بن گیا تھا …..!

صلیبیوں کی اس تاریخی میٹنگ میں ہرمن نامی انٹیلی جنس آفیسر بھی موجود تھا۔یہ وہ شخص ہے جس نے صلیبی تاریخ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہچایا۔ یہ نہایت شاطر اور ذہین و فطین شخص تھا۔اس نے مسلمان اور صلیبی نوجوان کی نفسیات پر بات کرتے واضح کیا۔ میری ساٹھ سالہ زندگی کا تجربہ ہے کہ ایک عیاشی پسند وجود کبھی بھی زندگی کے میدان میں بہترین سپاہی نہیں بن سکتا۔ خصوصا وہ لوگ جو سیکس کے معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انکی جسمانی و روحانی طاقتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اگر میں مسلم فوج کی بات کروں تو مسلمان فوج میں ایسے نوجوانوں کی اکثریت ہے جو سیکس کی لذت سے یکسر نا آشنا ہیں۔ان میں سے جو شادی شدہ بھی ہیں وہ بھی اس چیز کو ایک حد تک آزما پاتے ہیں۔ تصور کی رعنائیاں اور خوبصور ت نظارے ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔ انھیں مذہب سے آگے اور پیچھے کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ لہذا ہم اگر ان میں جنسی بھوک کو پیدا کر دیں تو ان کی سوچ اور نظریات کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اس مشن کی کامیابی کی ایک مثال وہ مسلمان بادشاہ اور وزرا بھی ہیں جو شروع میں سطان ایوبی کے ساتھ تھے لیکن ہماری خوبصور ت لڑکیوں نے جب سے انھیں اپنی حسین اداؤں کا اسیر کیا تب سے وہ خدا اور رسول کو جانتے ہی نہیں ہیں انھیں سلطان ایوبی اپنا سب سے بڑا دشمن نظر آتا ہے۔ ان مسلمان وظیفہ خوروں میں سے وہ جرنیل بھی شامل ہیں جن کی حکمت عملیاں اور بہادریاں میدانوں کے نقشے بدل ڈالا کرتی تھیں۔ آج وہ صلیبیوں سے نگاہیں جھکا کر بات کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم انکے اندر عورت اور جنسیات کی روح داخل کرچکے ہیں۔ اگر یہی حربہ پوری مسلمان فوج پر آزمایا جائے تو یقیناً ہم کامیاب ہونگے۔ کیونکہ مسلمان نوجوان کیلئے یہ ایک بالکل نئی چیز ہوگی اور وہ اس کیلئے جنونی ہوسکتے ہیں …..!

ہرمن کے اس خیال پر رونالڈ نے نکتہ اٹھایا۔ اس نے کہا :

” ہم متعدد بار نہایت خوبصورت لڑکیاں مسلمان فوج میں داخل کر چکے ہیں۔ اس کام میں ہمیں شدید تخریب کاری کرنا بھی پڑی تھی۔ لیکن مسلمان فوج ان حسین لڑکیوں کی طرف دیکھنے کا تکلف ہی نہیں کرتی ہے۔اور متعدد لڑکیاں مسلمان فوج کا کردار دیکھ کر صلیبی حمایت چھوڑ چکی ہیں۔ لہذا تمھارا یہ منصوبہ ناکام ہے …..! “

ہرمن نے فوری جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا :

” حضور جب تک آپ کے اندر کسی چیز کا تصور موجود نہ ہو اسکا ہونا نہ ہونا بے معنی ہوتا ہے۔ ہمیں مسلم فوج میں جنسی دنیا کا تصور پیدا کرنا ہے۔ایسا تصور جو ان کی سوچ کی راہداریوں میں برہنہ عورتوں کو حسین اداؤں کے ساتھ گردش کرتا دکھائے۔ اس کے بعد وہ خود ہماری ثقافت کے حوالے کر دیں گے کیونکہ یہ ہماری ایجاد ہوگی، یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم مسلمان کو شکست دے سکتے ہیں …..! “

رونالڈ ہرمن کی اس بات پر بہت زیادہ سنجیدہ ہوگیا اور سرگوشی بھرے لہجے میں بولا :

” آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو …..! “

ہرمن نے نہایت شاطرانہ انداز میں تاریخ کا سب سے بھیانک منصوبہ رونالڈ کے سامنے پیش کر دیا۔ دنیا کے سامنے یہ منصوبہ آرٹ پورن گرافی کے نام سے سامنے آیا۔ اس منصوبے کے ایک سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاح ملی کہ فوج کے کچھ نوجوان رات کوغائب پائے جاتے ہیں۔ نوجوانوں میں اکثر جنسی گفتگو بھی سنی گئی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس چیز کو اتنا سنجیدگی سے لیا کہ خود بھیس بدل کر ان نوجوانوں کا پیچھا کیا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ سلطان ایوبی بذات خود بھیس اور آواز بدلنے کے ماہر تھے۔ تاریخ میں متعدد بار ان کی ایک دوسری شخصیت کے روپ میں دشمن کے ساتھ ملاقات کی روایات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ ایک جنگ میں شکست کے بعد صلیبی اعلی افسران کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔ سلطان نے ایک افسر سے پوچھا :

” رات جس شخص سے تم نے کہا تھا میں ایوبی کو اسکی سانس کی مہک سے پہچان سکتا ہوں بتاؤ وہ کون تھا ……!”

وہ صلیبی افسر بولا :

” حضور وہ ایک عربی تاجر تھا جس کی غلط بیانی نے ہمیں آپ کے سامنے لا کھڑا کیا …..!’

سلطان ایوبی نے مسکراتے ہوئے کہا :

” وہ میں خود تھا …..! “

وہ حیرت زدہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو تکتا رہ گیا …..

دوستو! فوج کے کچھ نوجوانوں کی پرسرار حرکتوں پر سلطان ایوبی خود ان کے پیچھے گئے تو معلوم ہوا فوجی قیام گاہ سے کچھ فاصلے پر ایک قافلہ رکا ہے۔ جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے پاس فحش تصاویر کے کچھ نمونے موجود ہیں۔ جب سلطان نے وہ تصاویر دیکھیں تو دنگ رہ گئے۔ ان میں ایسی منظر کشی کی گئی تھی کہ کوئی بھی نوجوان سیکس کیلئے جنونی ہوسکتا تھا۔اسی دوران سلطان صلاح الدین ایوبی کو دمشق اور مصر کے دیگر شہروں سے اطلاعات ملیں کہ شہر میں فحش تصاویر کے قبہ خانے کھل گئے ہیں۔ جہاں جنسی اشتعال انگیز تصاویر دکھائی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کو جنسیات کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ مسلمان نوجوان بڑی تیزی سے برائی کی طرف مائل ہو رہے ہیں …..!

سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوری اپنی جنگی پیش قدمی روکی اور پورن گرافی کے اس ناسور کے خلاف محاذ کھولا۔ اس حوالے سطان صلاح الدین ایوبی نے ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا :

” ہر قوم کی طاقت اس کا اچھا یا برا کردار ہوا کرتا ہے، دشمن ہماری اصل طاقت کا اندازہ لگا چکا ہے۔ اب وہ سامنے کی جنگ کبھی نہیں کرے گا۔ اسی لیے دشمن اب ہمارے قومی کردار پر حملہ آور ہوا ہے، کیونکہ ضروری نہیں جنگ میدانوں میں ہو۔ جنگ سوچ اور رویوں کی بھی ہوتی ہے۔ جو قوم اس پر غالب آجاتی ہے وہ فتح یاب ہوتی ہے …..!

صلیبی انٹیلی جنس آفیسر ہرمن ایک نہایت ذہین اور شاطر انسان تھا۔اگر آپ صلیبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ شخص پوری تاریخ میں چھایا ہوا نظر آئے گا۔ صلیبی جب ہمت ہار چکے تھے تو اس شخص نے ان میں جان ڈال دی۔ اسی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے مشہور مصور اور منظر نگار وں کو منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا۔ ان سے ایسی فحش تصویر کشی کروائی گئی کہ دیکھ کر نظریں ہٹانا مشکل ہوجاتا تھا۔ وہ سیکس جس پر لوگ ایک حد تک توجہ دیتے تھے پھر اسے بے حد سوچنے لگے۔ صلیبی بادشاہوں نے جب اپنے اس منصوبے کو سو فیصد کامیاب ہوتے دیکھا تو اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ بڑی شان سے کیا …..!

اگرچہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس زہر کو مارنے کی پوری کوشش کی۔ لیکن اس مسئلے کا پوری طرح ادراک نہ ہوسکا۔ کیونکہ اس زہر کے اثر کو دیکھتے ہوئے حسن بن صباح کے فرقے نے اسے بطور ہتھیار اپنایا۔ صلیبیوں سے اس آرٹ گرافی کی نئی جدتوں پر مانگ کی۔ یوں حسن بن صباح کی پہاڑوں میں بنائی ہوئی پرسرار جنت میں ایک اور ہتھیار کا اضافہ ہوا اور اسی دوران سلطان بیت المقدس کی فتح کے بعد چل بسے۔ صلیبی اپنا دم خم کھو چکے تھے لیکن ان کا تیار کردہ زہر پورن گرافی مسلسل فحاشی کے جراثیم پھیلاتا رہا۔….

آخر اٹھارہویں صدی کا سورج طلوع ہوا۔ یہ وہ صدی ہے جب سائنس کے علم میں انقلاب کی فضا پیدا ہونا شروع ہوئی تھی۔ نئی جدتیں اور نئی منزلیں روشن ہو رہیں تھیں۔ اٹھارہویں صدی کے شروع میں پورن گرافی پر ایک بار پھر نئے انداز میں کام شروع ہوا۔ اس بار پورن گرافی کیلئے لکڑی کا استعمال ہوا۔ اس کے علاوہ درختوں کو بھی کانٹ چھانٹ کر جنسی عضو کی طرح بنا دیا گیا فرانس میں ہوئے اس تماشے پر لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ لوگ بے پناہ دلچسپی سے لکڑی کے بنے جنسی سامان اور درختوں پر ہوئی زیادتی دیکھنے جوق در جوق آ رہے تھے۔ اس وڈ پورن گرافی پر لوگوں میں جنسی آزاد خیالی پیدا ہوئی۔ لہذا لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے امریکہ، فرانس اور لندن میں وڈ پورن گرافی کے چھوٹے چھوٹے پورن ہاوس کھل گئے، جو ایک چھوٹا سا جنگل ہوتا تھا۔ جس میں پورن گرافی کے فن پارے درختوں پر عیاں ہوتے تھے …..!

1839 میں کیمرہ ایجاد ہوا …

یہ ایجاد بہت جلد پورن گرافی کا اہم ہتھیار بن گئی۔ 1855 میں پہلی باراسے پورن گرافی کیلئے استعمال کیا گیا۔ لیکن اس پورن گرافی میں مسئلہ یہ تھا کہ کیمرہ تصویر کی صرف ایک کاپی بناتا تھا۔ اس تصویر کو بہت زیادہ شیئر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی لیے پورن گرافی کا جن مشکل کا شکار ہوگیا …

لیکن یہ مسئلہ اس وقت مسئلہ نہ رہا جب 1863 میں پرنٹر ایجاد ہوا۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی سیکس تصاویر سے بھرپُور پلے کارڈز اور جنسی خاکے لوگوں کے ہاتھ میں آچکے تھے …

1871 میں جنسی تصاویر بلیک اینڈ وائٹ رزلٹ میں پوری شدت کے ساتھ مارکیٹ آچکی تھیں۔ ان مارکیٹوں میں فرانس کی مارکیٹ سب سے آگے رہی …

1876 میں ویڈیو کیمرہ ٹیکنالوجی منظر عام پر آئی۔ اس ٹیکنالوجی میں ویڈیو کیمرہ ایک منٹ میں ساٹھ تصاویر کو کیپچر کرتا تھا۔ پھر ان تصاویر کو چرخا نما مشین پر ایک بڑے رول بنڈل کی صورت چڑھایا جاتا۔ پھر اس چرخے کو ہاتھ سے چلایا جاتا۔ اس سے تصویر اس تیزی سے گھومتی تھی مانو …! ایسے لگتا جیسے ویڈیو پلے ہو رہی ہو۔ اسی طریقہ عمل کو آگے چل کر ٹی وی ٹیکنالوجی میں استعمال کیا گیا۔ آج جو ہم حرکت کرتی اور زندہ محسوس ہوتی HD ویڈیوز دیکھتے ہیں دراصل یہ ہزاروں تصاویر کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ جو اس تیزی اور صفائی سے پلے ہوتی ہیں کہ ہمیں تصویر حرکت کرتی نظر آتی ہے …..!

ویڈیو ٹیکنالوجی کے وجود میں آتے ہی یورپی ممالک میں فلم ساز انڈسٹری کا ابتدائی ڈھانچہ بننا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ پورن انڈسٹری کا آغاز ہوا …..!

پہلی پورن فلم 1895 میں ریلیز ہوئی۔اسے لومئیر برادرز انڈسٹری نے پہلی بار عوامی نمائش کیلئے فرانس میں پیش کیا۔ اس کے ڈائرکٹر مسٹر البرٹ کرچنر تھے۔ پہلی پورن فلم سولہ منٹ کی تھی جس میں ایک عورت کو برہنہ انداز میں ہوش ربا ادائیں دکھاتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہ فلم نہایت منافع بخش ریکارڈ کے ساتھ مقبول ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی سیکس کی خواہش ضرورت سے بڑھ کر جنون میں بدل گئی۔یورپ کے گلی کوچوں میں لوگ بے ہودہ مذاق اور چھیڑ خوانی کرنے لگے۔ پھر یہی چیز آگے چل کر یورپی ثقافت کا حصہ بن گئی …..!

انیسویں صدی کے آغاز میں کیمرہ ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آئی۔ منظر پہلے سے زیادہ صاف اور معیاری ریکارڈ ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے سرکاری سطح پر پورن تھیٹر کھول دیئے۔ جہاں پورن اداکاروں کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا …..!

1920 تک یورپی تہذیب پورن گرافی کے اس زہر میں ڈوب چکی تھی۔ عوام سر عام سڑکوں کو بیڈ روم بنائے اپنا شوق پورا کرنے لگی۔ ساحل سمندر عیاشی کے اڈے بن گئے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں سے بھاگنے لگے …..!

1970 میں پورن گرافی کا زہر برصغیر میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے پہل یہ صرف تصاویر پر مشتمل تھا۔ اسے ویڈیو دکھانے کیلئے یورپی کمپنیز نے پاکستان و بھارت میں پورن سینما کی اجازت چاہی۔ اس کے جواب میں صرف انکار ہی نہیں کیا گیا بلکہ پورن گرافی کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیا گیا …..!

دوسری طرف یورپی ممالک میں سیکس ویڈیوز کی ڈیمانڈ کم ہونا شروع ہوئی، کیونکہ ایک ہی سین ہر فلم میں دیکھ کر عوام بور ہونے لگے۔ دوسرا بذات خود ان کا معاشرہ اتنا آزاد ہوچکا تھا کہ ویڈیو دیکھنے کی ضرورت روز بروز کم ہونے لگی۔ اسی صورت حال سے پریشان ہوکر پورن انڈسٹری نے پورن گرافی کی نئے انداز پر کام کرنے کے بارے میں سوچا۔ یوں پورن کیٹیگری پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ اس پورن کیٹیگری پراجیکٹ میں سیکس کو کئی اقسام میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہر قسم کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا تھا …..!

اگر آج ہم کسی پورن ویب سائٹ کو اوپن کریں تو ہمارے سامنے ایک لسٹ اوپن ہو جاتی ہے۔ جس میں سیکس کی مختلف کیٹگریز نظر آتی ہیں۔ جب کیٹیگری پراجیکٹ یورپی عوام کے سامنے لایا گیا تو دیکھنے والوں کا ازدحام کھڑا ہو گیا کیونکہ اس دفعہ فحاشی کے مناظر روایتی طریقوں سے ہٹ کر ریکارڈ کیے گئے تھے، یہ پراجیکٹ پورن انڈسٹری کیلئے آب حیات کی صورت اختیار کر گیا۔ کیونکہ اسی کی بدولت ہر شخص کی جنسی نفسیات ابھر کر سامنے آئیں۔ مثلا ایک شخص دھواں دار جنسی مناظر کی بجائے ریلیکس پورن دیکھنا پسند کرتا ہے، تو اس کیلئے الگ کیٹیگر ی موجود ہوگی۔اور یقینا ًپانچ سال بعد بھی وہ ریلیکس پورن دیکھنا ہی پسند کرے گا۔ یوں ہر شخص کی جنسی خواہش کے مطابق اسے پورن گرافی کا نشہ ملنے لگا …..!

1980 میں وی سی آر ٹیکنالوجی برصغیر میں عام ہوئی۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں کمپیوٹر بھی پاکستان میں اکا دکا جلوہ گر ہوچکے تھے۔ لیکن عام لوگ اس سے نا آشنا تھے۔ لہذا لوگ پردہ سکرین سے ہٹ کر وی سی آر کی طرف متوجہ ہوئے۔ اسی دوران پاکستان فلم انڈسٹری بھی پوری شان سے ابھر کر سامنے آئی۔ یورپی کمپنیز نے جب ایشیائی لوگوں کا وی سی آر کی طرف رجحان دیکھا تو ان کی آنکھوں لالچ کی چمک پیدا ہوئی۔ یوں فحش فلمیں پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں بلیک ہوکر بکنے لگیں …..!

1998 میں یورپی پورن انڈسٹری نامعلوم ہاتھوں میں چلی گئی۔ پہلے یہ صرف جنسی کاروبار کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ لیکن پھر اسے پوری دنیا کو جنسی دہشت گردی کیلئے چنا گیا۔ پورن انڈسٹری میں ایک ایسا جنسی طریقہ متعارف کروایا گیا۔ جو براہ راست کینسر ، گلوریا اور دیگر تباہ کن بیماریوں کا موجب ہے۔ اس طریقہ کار کو اورل سیکس کہتے ہیں۔ آپ نے ایک چیز اکثر نوٹ کی ہوگی۔ پورن فلم کی چاہے کوئی بھی کیٹیگری ویڈیو دیکھ لیں۔ فلم کے سٹارٹ میں اورل سیکس کا مظاہرہ ضرور کیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ بھی ایک باقاعدہ جنسی عمل کا حصہ ہے …..!

سائنسی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ہمارے جسم میں ایک مادہ منی کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔ جو ڈی این اے میں اکثر خرابی کا باعث بنتا ہے۔ اگر وہ منہ کے ذریعے معدے میں چلا جائے یا دانتوں میں اس کی کوئی باقیات رہ جائیں۔ تو وہ منہ کے خلیات میں p16 پروٹین نامی مادہ پیدا کر دیتا ہے۔ جو منہ کے کینسر اور بلڈ پرابلمز کو جنم دیتا ہے اور یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج یہودی لیبارٹریوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ ان بیماریوں کی تمام دوائیاں اسرائیلی کمپنیز سے نہایت مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ ان بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کے چہرے بدل جاتے ہیں اور موت سسک سسک کر آتی ہے۔ لہذا اورل سیکس کے شوقین شوق پورا کرنے سے پہلے چشم تصور میں اپنا انجام بھی سوچ لیں …..!

اورل سیکس دراصل خفیہ یہودی ایجنسیز کا ذریعہ آمدنی ہے۔ اسی کے ذریعے لوگ ان کا شکار بنتے ہیں اور انھیں لاکھوں ڈالر لٹاتے ہیں۔ اورل سیکس کے ساتھ سکیٹ ایٹنگ اور پس ڈرنکنگ سیکس کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ جو کہ یہودی ایجنسیز کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ان پورن ویڈیوز میں کام کرنے والے اداکاروں کو شوٹنگ کے فوری بعد، ان کے منہ میں مخصوص سپرے کیے جاتے ہیں جو منہ میں گری غلاظت کے تمام جراثیم ختم کر دیتے ہیں۔ ہمارے عام علماء کا خیال ہے کہ پورن ویڈیوز صرف مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں۔ حقیقتا ایسا نہیں ہے۔ یہودی ایجنسیز کا ٹارگٹ پوری دنیا کے مذاہب ہیں۔ کیونکہ تمام مذاہب ان کے انتہا پسند نظریات کو ہر صورت رد کرتے ہیں …..!

یہودی نہایت مہارت سے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ جنھیں ون ورلڈ آرڈر کہتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی دنیا جہاں کسی خدا کا تصور نہ ہو، جہاں کوئی تہذیب نہ ہو، جہاں کوئی قانون نہ ہو۔ بس ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے یہودی غلامی، اس مشن کی تفصیلات چشم کشا اور دل آویز ہیں …..!

TO BE CONTINUED…..