پشاور کمسن سیکس ورکروں کا گڑھ بن گیا! کیا پختونخوا حکومت سو رہی ہے؟


رقم، اسمارٹ فونز اور تحائف کے باآسانی حصول کا لالچ شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں کم سن اور غریب لڑکوں کو جنسی استحصال و بدسلوکی کے ایک تاریک راستے پر ڈال رہا ہے۔

اپنے پریشان کن تجربات بیان کرتے ہوئے پشاور کے ایک نوجوان رہائشی خان* کہتے ہیں کہ وہ جب بارہ برس کی عمر کے تھے تو ان کے بڑے بھائی کے دوست نے ان کا استحصال شروع کیا اور انہیں اس مقصد کے لیے تیار کیا۔

خان نے بتایا ’’احمد ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم روزانہ اس کے گھر جاتے اور اس کے کھلونوں، موبائل اور دیگر گیجٹس کے ساتھ کھیلتے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’ابتداء میں وہ پیار و محبت کے بہانے مجھے گلے لگاتا اور مجھے چھونے کی کوشش کرتا۔ ایک روز جب ہم کمرے میں اکیلے تھے تو اس نے مجھ سے زبردستی زیادتی کہ، پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔‘‘

احمد جب بھی خان کے ساتھ جب بھی زیادتی کرتا تو اس کے بدلے میں اس کو تحفے، اچھے کھانے اور نقد رقم دیا کرتا، وقت گزرنے کے بعد اس متاثرہ لڑکے کو اس نے اپنے دوست کے ساتھ متعارف کروایا، وہ بھی اس لڑکے کو زیادتی کا نشانہ بناتا۔

جنسی استحصال کا یہ راستہ خان کو پشاور کے جناح پارک میں لے گیا، جو پیشہ ور سیکس ورکروں اور بچوں کے استحصال کا ایک مرکز ہے۔ یہ پارک نوعمر جنسی کارکنوں کے لیے محفوظ پک اپ پوائنٹ ہونے کی وجہ سے بدنام ہوچکا ہے۔

پشاور کے مرکزی جی ٹی روڈ پر واقع یہ ’فیملی پارک‘ کے طور پر ایک پبلک پوائنٹ ہے۔ اس پارک کو اکثر ناپاک سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

آٹھ بجے رات کے بعد یہ پارک ویران ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے سیکس ورکروں کے لیے نظروں میں آئے بغیر اپنا کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

جناح پارک کا ایک منظر۔ —. فوٹو مصنف

 

خان نے یاد کرتے ہوئے کہا ’’میرے پڑوسیوں کو بالآخر اس بات کی ہوا لگ گئی کہ میں کس قسم کے کاموں میں ملؤث ہوگیا ہوں، اور یہ بات اس قدر بُری ثابت ہوئی کہ انہوں نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تمام تعلقات توڑنے پر مجبور ہوگیا۔‘‘

 

جناح پارک پر خان کی دیگر کم سن سیکس ورکروں اور خورشید نامی ایک دلال سے ملاقات ہوئی۔

خان نے بتایا ’’خورشید ہمیشہ مرد و خواتین دونوں قسم کے سیکس ورکروں کی تلاش میں رہتا ہے، اور اس کے مختلف ہوٹلوں اور راولپنڈی و قبائلی پٹی کے قحبہ خانوں سے اس کے رابطے ہیں۔ اس کی ان بس ڈرائیوروں سے بھی واقفیت ہے، جو نوجوان لڑکوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔‘‘

ایک اور کم سن لڑکا گل، جو پہلے اپنی روزی کمانے کے لیے جوتے پالش کرتا تھا، وہ بھی جناح پارک پر خفیہ جنسی تجارت میں ملوث ہوگیا۔

صاف جلد اور پُرکشش خدوخال کے گل نے بتایا کہ اس کو پہلی مرتبہ ایک بزرگ شخص نے پشاور کے علاقے پشتہ خارا میں زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

اس نے بتایا ’’ہمارے اہم گاہک ڈرائیور اور روزانہ اجرت پانے والے مزدور ہیں، جو ہمیں پارک کے تاریک حصوں میں لے جاتے ہیں۔‘‘

کسی قسم کی مدد کی امید نہ ہونے کی وجہ سے ان کم سن متاثرین نے اپنی قسمت کو قبول کرلیا ہے۔

خان نے بتایا ’’ہم اچھی رقم کمارہے ہیں، اور اب ہمارے پاس ٹچ اسکرین کے موبائل فونز بھی ہیں۔‘‘

انہوں نے انکشاف کیا کہ خورشید لڑکوں کو مختلف شہروں اور ضلعوں میں بھیجتا ہے، جہاں انہیں جنسی استحصال کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے پر اچھی رقم ادا کی جاتی ہے۔ کسی بڑے شہر میں ایک ہفتے طویل قیام کے دوران یہ نوجوان لڑکے آٹھ سے دس ہزار روپے باآسانی کماسکتے ہیں۔

خان نے کہا ’’مزدور، تاجر اور یہاں تک کہ سیکیورٹی اہلکار ہمارا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ہر دوسرا فرد ہمیں بستر پر لے جانا چاہتا ہے۔ مجھے پسند نہیں ہے، لیکن میں صرف پیسے کمانے کے لیے ایسا کرتا ہوں۔‘‘

 

’ہم جانتے ہیں کہ اپنے لڑکوں کو کس طرح اکھٹا کرنا ہے‘

نوجوان لڑکوں کے ایک دلال، شان خان کہتے ہیں، ہم جنس پرستی کو روزمرہ کی بولی میں ’بچہ بازی‘ کہا جاتا ہے، یہ ہر جگہ پائی جاتی ہے، لیکن خیبر پختونخوا میں بعض ضلعے اس کے لیے بدنا م ہیں۔اس کی ثقافت اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ اس پر مبنی غیرمہذب لطیفے اور ٹیکسٹ میسیجز روزانہ گردش کرتے رہتے ہیں۔

 

شیر خان دو بچوں کے باپ ہیں اور اس قدر مہارت رکھتے ہیں کہ وہ ہزاروں کے ہجوم میں سے ’اپنے لڑکے‘ کو اُٹھاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا’’ہمارے پاس ایک مخصوص سیٹی کی تیکنیک ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے لڑکوں کو اکھٹا کرلیتے ہیں۔‘‘

انہوں نے نہایت بے شرمی کے ساتھ تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنی ہوس پورا کرنے کے لیے پیسوں اور تحفوں کا لالچ دیتے ہوئے کم سن لڑکوں کا استحصال کیا ہے۔

 

پشاور میں ٹریفک پولیس کا ہیڈکوارٹر، جس کے پیچھے ہی جناح پارک واقع ہے۔ —. فوٹو مصنف

2014ء میں بچوں کے استحصال کے 2 ہزار سے زیادہ کیسز

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم ساحل کا کہنا ہے کہ اغلام بازی کے 284 کیسز کے سمیت بچوں کے استحصال کے 2 ہزار 54 کیسز 2014ء کے دوران پاکستان میں رپورٹ ہوئے۔تاہم اس تعداد سے حقائق کی عکاسی نہیں ہوتی۔

 

ساحل کے ساتھ کام کرنے والے ایک سینئر سماجی کارکن حبیبہ سلمان نے نشاندہی کی کہ 80 فیصد سے زیادہ کیسز پولیس اور میڈیا پر رپورٹ نہی کیے جاتے۔ انہوں نے انکشاف کیا’’حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔‘‘

حبیبہ کہتی ہیں کہ ان کیسز کی اکثریت میں متاثرہ فرد کا خاندان اپنی ’عزت بچانے‘ اور معاملے کو دبانے کے لیے ملزم کے ساتھ ’سمجھوتہ‘ کرلیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’زیادہ تر بچوں کو ان کے رشتہ دار یا دوست جنسی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ مزید یہ کہ اساتذہ، پولیس اہلکار اور مذہبی پیشوا بھی بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہیں۔

حبیبہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’بس اڈّوں، پارکوں، ٹیوب ویلوں اور زیرِ تعمیر عمارتیں اس قسم کی سرگرمیوں کے لیے بدنام ہیں۔ بچے جنسی استحصال کے متاثرین بن جاتے ہیں، اور ان میں جنسی بیماریاں پنپنے لگتی ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی حقیقت ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

جناح پارک اس تاریک ، پوشیدہ اور منظم مسئلے کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔