یہ ہیں مولانا طارق جمیل صاحب


میانچنوں سے عبدالحکیم جاتے ہوئے راستے میں تلمبہ کا تاریخی شہر نظر آتا ہے – مؤرخین کے مطابق تلمبہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی…اسے قبل مسیح میں توحید کے متوالے بادشاہ پرھلاد کا پایہ تخت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور ھندو مذہب کے ہیرو رام چندرجی ، رام لچھمن جی اور ان کی بیوی سیتا کی میزبانی کا بھی-
بس تلمبہ کے قریب سے گزرتی ہے تو ایک نہایت پرشکوہ عمارت نظر آتی ہے…. یہ ہے مولانا طارق جمیل صاحب کا مدرسہ حصنات…..اور یہ عین اسی جگہ واقع ہے جہاں دس بارہ سال پہلے پاکستان کا سب سے بڑا اور قدیم بازار حسن تھا-

اس خطے میں جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں…انگریز دور سے ہی تین بڑے بازار حسن قائم تھے…..لاہور….ملتان ….اور تلمبہ……کراچی کی لی مارکیٹ اور نیپئر روڈ بہت بعد کی پیداوار ہیں-
تلمبہ کا بازار حسن 1818 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قائم کیا ، اور وسط پنجاب میں ہونے کی وجہ سے یہ مقبول خاص وعام تھا – سینما تھیٹر اور ٹی وی کے دور سے پہلے یہاں کی رقاصائیں ملک کے کونے کونے میں اپنے فن کا جادو جگا کر تقریبات کا حسن دوبالا کرتی تھیں…..پھر وقت بدلا اور رقص و موسیقی نے باقاعدہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا روپ اختیار کیا تو بازار بھی اس سے متاثر ہوئے- ان بازاروں کی اعلی کوالٹی ترقی کرتے کرتے پہلے فنکار….پھر آرٹسٹ اور بعد میں سیلیبریٹیز بن گئ… اور بچا کھچا سامان طوائف کا لیبل لگا کر جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہو گیا – تلمبہ کے بازارحسن کی شہرت ضرب المثل کا درجہ رکھتی تھی….. پنجاب میں دیہاتی عورتوں کی کوئ بھی لڑائ ، ایک دوسرے کو “تلمبہ دی کنجری” کہے بغیر آج بھی پھیکی سمجھی جاتی ہے……
جولوگ اپنے گھر کا کچرا باہر گلی میں پھینک کر نصف ایمان کے درجے پہ فائز ہو جاتے ہیں….ان کےلیے یہ بازار قطعاً اس قابل نہ تھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچ کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے- پھر ہمارے ہاں تو گندی نالیوں کی صفائ کےلیے بھی عموماً کرسچین رکھے جاتے ہیں …..نیک لوگ ایسی متعفن جگہوں سے منہ ڈھانک کر اور پائنچے چڑھا کر گزرتے ہیں…اور بد خصلت صرف رات کے اندھیرے میں ادھر جھانکتے ہیں……طارق جمیل غالباً وہ پہلا شخص تھا جس نے دن کے اجالے میں اس تاریک نگر کا رخ کیا –
شروع شروع میں مولانا کی یہ “حرکت” ان کے معتقدین کو بھی ناگوار گزری – بازار کے کرتا دھرتاؤں کو بھی اس پر اعتراض ہوا…..لیکن مولانا کا استدلال یہ تھا کہ دین سیکھنا ہر اس شخص کا حق ہے جس نے کلمہ پڑھ رکھا ہے….. بازار حسن سے تعلق رکھنے والے چونکہ مسلمان ہیں…اس لیے انہیں اس نعمت سے محروم نہیں کیا جاسکتا….
مولانا ایک مدت تک چارسو گھروں پر مشتمل اس کنجر محلہ میں جاتے اور ایک کونے میں بیٹھ کر درس قران دیتے رہے – آہستہ آہستہ پیشہ ور خواتین کی ایک معقول تعداد ان کے لیکچرز اٹینڈ کرنے لگی…..طارق جمیل صاحب انہیں میری بہنوں کہ کر مخاطب کرتے اور نماز کا درس دیتے…امہات المؤمنین کے ایمان افروز واقعات بتاتے……صحابیات کے قصے سناتے….اور کربلاء کی عفت ماب بیبیوں کا تزکرہ فرماتے…….آخر ایک روز ایک عورت نے کہا مولانا تم روز ہمیں درس تو دینے آجاتے ہو….لیکن ہمیں اس کا فائدہ کیا ہے….اگر ہم اس گندے کام سے توبہ بھی کر لیں تو کیا یہ معاشرہ ہمیں قبول کر لے گا…..لوگ تو ہمیں دیکھ کر تھوکنا بھی گوارا نہیں کرتے….ہمیں اپنائے گا کون !!!!
مولانا نے کہا کہ رب پر توکل کرو ….وہ فرماتا ہے….”تم میری طرف چل کر آؤ….میں دوڑ کر آؤں گا.” ……تم ایک بار چل کر تو دیکھو….باقی رب پر چھوڑ دو…….تاکہ قیامت والے دن کوئ عذر تو ہو تمھارے پاس –
پھر مولانا نے یہ بات مختلف حلقوں میں چلائ…..اس کارخیر کےلیے ملک کے دور دراز علاقوں میں خفیہ و اعلانیہ مہم چلائ…..بہت سے نیک اور صالح نوجوان ان خواتین سے شادی کےلیے تیار ہوگئے …….اور آہستہ آہستہ…پاکستان کے اس تیسرے بڑے بازار حسن کی آبادی گھٹنے لگی…..کئ سال لگے…آخر ایک دن وہ بازار ویران ہوگیا…..اور طارق جمیل صاحب نے وہ جگہ خرید کر مدرسے کےلیے وقف کردی.
اس سب مساعی کے باوجود طارق جمیل میرا آئیڈیل نہیں ہے- وہ ایک انسان محض ہے- اس میں بے شمار عیوب بھی ہیں….میری آئیڈیل شخصیت وہی ہے جنہیں تاج نبوّت نوازنے سے کئ سال پہلے خالق کائنات نے شق صدر کر کے ، ان تمام کمزوریوں سے پاک فرمادیا تھا جو عام انسانوں میں ہوتی ہیں ….لیکن مجھے فخر ضرور ہے کہ میرے آقا (ص) کا پندھرویں صدی کا امتی طارق جمیل جیسا ہے
نعرے بازی…احتجاج….کافر کافر….تبرا بازی……تو سب کرتے ہیں….کاش کوئ مصلح بھی ہو …جو اسی حکمت و بصیرت سے معاشرے کا گند صاف کرے جس طرح چودہ سوسال پہلے میرے آقا نے اس بدو کا گند صاف کیا تھا جس نے مسجد میں پیشاب کردیا تھا- !!