نوجوان پاکستانی لڑکی کی ایسی آپ بیتی جو آپ کے رونگٹےکھڑے کردے


ہم گریجویشن کرکے فارغ ہونے والے تھے۔ ایک روز میرے کچھ کلاس فیلوز نے مجھے فون کیا۔ انہوں نے اسلام آباد کی سیر کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ ایک دن کا پروگرام تھا اور ہمیں اسی روز شام کو واپس لاہور آنا تھا۔ وہ تمام لڑکے میرے بہت اچھے دوست تھے اور ہم پہلے بھی اکٹھے سیروتفریح کے لیے جاچکے تھے۔ ہم سب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے لہٰذا میرے لیے ان کے ساتھ جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا چنانچہ میں نے بلا سوچے سمجھے ہاں کہہ دی۔ ہم صبح لاہور سے نکلے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ ہم نے وفاقی دارالحکومت کے تمام سیاحتی مقامات کی سیر کی۔ ’مونال‘ میں ڈنر کیا، اور لاہور کے لیے واپس نکل پڑے۔ اسلام آباد سے موٹروے پر چڑھتے ہی ٹول پلازے پر ہمیں ایک پولیس والے نے روک لیا۔ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ وہ سیدھا میرے پاس آیا اور اس نے پہلا فقرہ یہ بولا کہ ”لڑکوں کے ساتھ کہاں جا رہی ہو؟“میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے پوچھا کہ ”تم سے مطلب؟“ اتنے پچھلی سیٹوں پر بیٹھے میرے کلاس فیلوز باہر نکلے اور پولیس والے کو لے کر کچھ دور چلے گئے۔ 5منٹ بعد وہ واپس آئے اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر آگے بڑھ گئے۔ وہ مجھ کچھ بتا نہیں رہے تھے
مگر جب میں نے اصرار کیا تو انہوں نے بتایا کہ پولیس والا ہمارے بارے میں کچھ غلط سمجھ رہا تھا۔ اس نے 500 روپے رشوت مانگی تھی جو اسے دے کر ہم نے جان چھڑوائی ہے۔ جب میں نے اس پر کچھ احتجاج کیا کہ تم لوگوں نے کیوں رقم دی، تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق وہ ہم پر فحاشی کا الزام لگا کر ہم سب کو جیل میں ڈال دیتا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ جب ہم لاہور میں داخل ہوئے تو ایک بار پھر ہمیں یہاں ایک پولیس والے نے روک لیا۔ اس سے بھی میرے ساتھ موجود لڑکوں نے 500روپے رشوت دے کر جان چھڑائی مگر یہ رشوت خور پولیس اہلکار جاتے ہوئے مجھے ’فاحشہ‘ کہنا نہیں بھولا۔ میں آج بھی حیران ہوتی ہوں کہ ان پولیس والوں نے مجھے دیکھتے ہی یہ کیسے طے کر لیا کہ میں کوئی جسم فروش عورت ہوں اور لڑکوں کے ساتھ جا رہی ہوں؟کیا میرا جرم صرف یہ تھا کہ میں عورت ہوں؟