قرآن اور سائنس میں بلیک ہول کا تصور! ایک کائنات سے دوسری کائنات جانے کا خفیہ راستہ


سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ قرآن پاک کی سورہ النجم میں بلیک ہولز اور آپؐ کے معراج پر جانے کا ذکر ہے، سائنسدان بلیک ہولز بارے تحقیق سے نبی اکرمؐ کی معراج پر جانے کی تصدیق کرتے ہیں، سائنسدان اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ آیت میں جس بیری کے درخت کاذکر ہے وہ دراصل بلیک ہول کیسے ہے اور کیسے وہ اس کائنات سے جنت الماویٰ کی جانب جانے کا راستہ ہے، واضح رہے کہ اس رپورٹ میں سورہ النجم کی آیات کا باقاعدہ ذکر کیا گیا۔ سورہ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے، ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔ یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔ بڑے طاقتور (جبرائیل) نے اسے سکھایا ہے۔ جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا (اصلی صورت میں)۔ اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا۔ پھر نزدیک ہوا پھر اور بھی قریب ہوا۔ پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔ پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے۔ جھوٹ نہیں کہا تھا جو دیکھا تھا۔ پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو۔ اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔ جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔ جب کہ اس سدرۃ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)۔ نہ تو نظر بہکی نہ حد سے بڑھی۔ بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ واضح رہے کہ سائنسدان پہلی بار کائنات کے ایک بڑے راز بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو ایک دور دراز واقع کہکشاں میں موجود تھا۔

’’کائنات ابدی اور لامحدود ہے، اس کا کوئی سرا نہیں، یہ ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ ہی قائم رہنے والی ہے۔ اس کا کوئی خالق نہیں، بس یہ خود ہی وجود میں آگئی۔‘‘ صدیوں تک یہ تصّورات انسانوں کے ذہنوں پر حاوی رہے اور بالآخر 115سال پہلے (1905) شہرۂ آفاق نظریہ اضافیت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ کائنات کے سب سے زیادہ تسلیم کیے جانے والے نظریے ’’بگ بینگ‘‘ کے مطابق تقریباً 14 ارب سال پہلے کائنات کی ابتدا ایک عظیم دھماکے سے ہوئی۔

اس دھماکے سے پہلے کچھ نہ تھا اور کائنات ایک نقطۂ یکتائی ’’سنگولیٹری‘‘ پر قائم تھی۔ نظریہ اضافیت نے یہ پیش گوئی بھی کردی تھی کہ کائنات ساکن نہیں بل کہ مسلسل حرکت پذیر ہے۔ اس پیش گوئی کے محض 17 سال بعد ہی 1920 ء کے عشرے میں عظیم ماہرفلکیات ایڈون پال ہبل اور روسی سائنس داں الیگزینڈر فرائیڈ مین کے غیرمتوقع تجربات کے نتائج نے اس مفروضے کو بالکل درست ثابت کردیا کہ وہ کائنات جو کہ سنگولیٹری سے شروع ہوئی تھی وہ پھیلتی ہی جارہی ہے۔

فرائیڈ مین کا یہ مفروضہ بھی کہ کائنات کو کہیں سے بھی اور کسی بھی مقام و زاویے سے دیکھا جائے وہ ایک جیسی نظر آتی ہے، سو فی صد درست ثابت ہوا۔ نظریہ اضافیت میں پھر سوال اٹھایا گیا جب کائنات کی ابتدا ایک نقطے سے ہوئی تھی تو پھر اس کا انجام بھی ایک نقطے ہی پر ہونا چاہیے؟ یہ نظریہ اضافیت کی ایک زبردست پیش گوئی بھی تھی۔ چناںچہ 65 سال بعد 1970 کے عشرے میں برطانوی لیجنڈری ماہرطبیعیات اسٹیفن ہاکنگ اور ان کے ہم وطن ساتھی ڈاکٹر پین روز نے سالوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کردیا کہ کائنات کا آغاز ایک نقطے یا سنگولیٹری سے ہوا تھا اور یہ ایک سنگولیٹری ہی پر انجام پذیر ہوگی، جسے انہوں نے ’’بگ کرنچ‘‘ (عظیم سمٹائو) سے تعبیر کیا ہے۔
اب کائنات کا جدید تصّور یہی ہے کہ کائنات نہ تو ابدی ہے اور نہ ہی لامحدود ہے، بل کہ یہ ہمیشہ سے حرکت میں ہے اور ایک خاص مدت کے بعد فنا ہوجانے والی ہے۔ ان حقائق کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ 1400 سال پہلے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بارے میں واضح طور پر بتادیا تھا کہ جس کا کہ اعلان جدید دور کی سائنس آج کررہی ہے۔

’’آسمانوں کو ہم نے اپنے (ہاتھوں ) سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں‘‘ (سورۂ الذاریات، 47 )

سورہ یٰس کے مطابق ’’نہیں ہوگی ابتلا مگر ایک دھماکا اور وہ بُھس ہوجائیں گے۔‘‘

یہ منظر سائنسی لحاظ سے کائنات کے اختتام کی صورت حال کو بیان کررہا ہے، جس میں زبردست عظیم دھماکا ’’سمٹائو‘‘ (بگ کرنچ) رونما ہوگا، تب کائنات اپنی پہلے والی پوزیشن یعنی سنگولیٹری پر واپس چلی جائے گی۔

کائنات کے پھیلائو کے بارے میں جدید تحقیقات نہایت اہمیت کی حامل تھیں جنہوں نے ہمیں نئی کہکشاؤں سے متعارف کروایا اور ہبل دوربین کی بدولت ہم نے کائنات کا وہ حصّہ دیکھ لیا جو کہ آج تک انسانی نظروں سے اوجھل رہا تھا۔ ہبل دوربین کی شان دار کھوجی مہمات نے کائنات کو بالکل جداگانہ انداز سے پرکھنے کے مواقع فراہم کردیے ہیں اور تحقیق و جستجو کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ سیاہ گڑھے یا بلیک ہول کا کائنات سے کیا گہرا تعلق ہے؟ ان کا کہکشاؤں کے مرکز میں وجود کیا معنی رکھتا ہے اور یہ کیوں سب سے زیادہ ماہرین کائنات کی تحقیق کا حصّہ رہے ہیں؟ بلیک ہول کو سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔

٭سیاہ گڑھا یا ’’بلیک ہول‘‘:

بلیک ہول دراصل ستارے کی زندگی کے مختلف ادوار کی ایک ممکنہ شکل ہے۔ جب کوئی ستارہ اپنی زندگی پوری کرلیتا ہے تو پھر اس میں سکڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور ایک مقام پر وہ ننھے ستارے یا بونے ستارے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ سفید اور نیلے بونے ستارے ہوسکتے ہیں۔ دوسرا امکان ہے کہ ستارہ بڑھنے کے عمل کی طرف گام زن ہوجائے اور اتنا بڑھ جائے کہ ایک زور دھماکے سے پھٹ پڑے۔ یہ دھماکا ’’سپرنووا‘‘ کہلاتا ہے، جس کی چمک اربوں ستاروں کی مجموعی روشنیوں کے برابر ہوتی ہے۔

اس عمل سے نئے ستارے اور کہکشائیں جنم لیتی ہیں، جب کہ آخری ممکنہ صورت یہ ہے کہ ستارہ سکڑنا شروع کردے اور اس عمل میں اتنا چھوٹا ہوجائے کہ اس کا وجود محض ایک نقطے (سنگولیٹری) پر آجائے، اب یہ ستارے کی آخری منزل ہے وہ مردار ستارہ(Dead Star) کہلاتا ہے، کیوںکہ یہ اپنی روشنی کھوچکا ہوتا ہے جس کا حجم بہت زیادہ بڑھ چکا ہوتا ہے۔ گویا جیسے ایک پہاڑ کا حجم ایک چمچے میں سمادیا گیا ہو۔ یہ مادّے کی بے پناہ کثیف حالت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کشش ثقل بے انتہا بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ اپنے اطراف کے اجرام فلکی، گیس اور دھول کو اپنے اندر جذب یا ہڑپ کرنا شروع کردیتا ہے، جس سے تاب کاری خارج ہوتی ہے۔

اس کے اطراف کھاجانے والی مادّے کی اسی روشنی و اثرات سے ’’سیاہ گڑھے‘‘ کی نشان دہی ہوتی ہے، ورنہ بلیک ہول کا وجود آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ بلیک ہول کا مقام جہاں تک یہ زبردست کشش ثقل عمل کرتی ہے اسے ’’واقعاتی افق‘‘ یا ’’ایونٹ ہوریزون‘‘ کہا جاتا ہے، سیاہ گڑھا اس کے اندر آنے والے تمام مادّی شے اور اجسام کو اپنا قیدی بنالیتا ہے اور حتیٰ کہ روشنی جیسی برق رفتار شے بھی یہاں پہنچ کر بے بس ہوجاتی ہے اور فرار نہیں ہوسکتی۔ جن اجسام کو بلیک ہول ہڑپ کرتے ہیں ان سے تاب کار شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ بلیک ہول کے دہانے سے چلتا ہوا مواد بیرونی خلاء میں ایک مخصوص دھارے کی شکل میں بہتا ہے، جسے ’’جیٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بلیک ہول دوسرے فلکی اجسام کی نسبت ایک ارب گنا مدھم ہیں اور ان کی موجودگی کا احساس جیٹس کے ذریعے سے ہوتا ہے، جس میں تاب کاری کی موجودگی سے ہی تاریک گڑھے کا وجود ثابت ہوجاتا ہے آئن اسٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت کہتا ہے کہ اگر کسی جسم پر بے انتہا کمیت رکھی جائے تو وہاں خم، گڑھے یا سوراخ کی صورت میں پیدا ہوگا اور وقت رک جائے گا۔ حالیہ ثقلی لہروں کی دریافت نے اس نظریے پر مُہرتصدیق کردی ہے کہ یہ لہریں اور بلیک ہول ایک ٹھوس حقیقت ہیں، جنہیں اب تک محض نظریاتی طور پر مانا جاتا تھا۔

بلیک ہول کی جدید اصطلاح امریکی ماہرفلکیات جان وھیلر نے 1969 میں استعمال کی تھی جب کہ اس کا تصّور200 سال پہلے ایک جرمن سائنس داں جان مچل پیش کرچکے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ستارے کے مادّے کی مقدار (کمیت) بے انتہا بڑھ جائے تو روشنی بھی کشش ثقل سے باہر نہیں آسکتی۔ مچل نے اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ بلیک ہول اپنے قریبی اجسام پر گریوٹشنل (تجازبی) قوت کے ذریعے عمل کرتا ہے۔ مچل کے علاوہ 1716 میں اسی طرح کا خیال معروف ریاضی داں لیب لیک نے بھی پیش کیا تھا، جب کہ عمومی نظریہ اضافیت کی رو سے بھی اس کی تصدیق ہوچکی ہے۔

آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ بھی کہتے رہے ہیں کہ سیاہ گڑھے کے واقعاتی افق میں گرنے والے کسی مادّے یا انسانی جسم کی واپسی ممکن نہیں ہے، جب کہ ہاکنگ کا حالیہ نظریہ بلیک ہول کے بارے میں کہتا ہے کہ وہاں سے فرار ممکن ہے، لیکن بلیک ہول میں گرنے والا جسم کسی اور کائنات میں جاسکتا ہے، جوکہ بالکل ہماری جیسی کائنا ت ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولوں کے بارے میں سب سے زیادہ عملی طورپر تحقیق میں حصہ بٹایا ہے اور انہوں نے ہی 45 سال پہلے ’’بلیک ہول کی گم شدہ معلومات کا پیراڈوکس‘‘کا معّما پیش کیا تھا جو اب ان کے مطابق حل ہونے کے قریب ہے۔

(پیراڈوکس سے مراد ایسا معاملہ یا حقیقت ہوتی ہے جو بظاہر تو غلط نظر آرہا ہو لیکن اصلیت میں درست ہو) ہاکنگ کے بلیک ہول پر کام کو ’’ہاکنگ کی تاب کاری ‘‘ کے نام سے بہ خوبی جانا جاتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ کائنات میں ڈیٹا ضایع نہیں ہوتا، بل کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں محفوظ رہتا ہے، کیوںکہ بلیک ہول سے روشنی بھی پلٹ کر واپس نہیں آتی اسی لیے وہاں ہونے والی تبدیلیوں کا ڈیٹا ہمیں حاصل نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا اس طریقے کو ممکن بنایا جائے کہ وہاں کی معلومات تک ہماری رسائی ہوسکے۔ اگر ہم نے بلیک ہول کے معاملے کو حل کرلیا تو یقیناً یہ کائنات کی ساخت کو سمجھنے کے مترادف ہوگا، کیوںکہ کائنات کا آغاز بھی ایک نقطے سے ہوا اور اختتام بھی ایک سنگولیٹری پر ہوگا۔

سیاہ گڑھے یا بلیک ہول کی ساخت بھی کائناتی خصوصیات کی حامل ہے، جس کی ابتدا اور انتہا سنگولیٹری پر ہوتی ہے۔ بلیک ہول پرنئی تحقیق سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ کچھ بلیک ہول تیزی سے حرکت پذیر ذرّات کو دھاروں کی شکل میں خارج کرتے ہیں۔ تحقیق میں لندن یونیورسٹی کے سائنس داں رابرٹ سوریا بھی شامل ہیں، جو کہتے ہیں کہ کہکشاں این جی سی 7793 کے بلیک ہول سے خارج ہونے والے ان دھاروں کی لمبائی حیران کن ہے۔ ان کے مطابق بلیک ہول جتنا بھی سکڑ جائے کہ فٹ بال کے برابر رہ جائے، لیکن اس سے نکلنے والا ہر دھارا بہت دور تک رسائی رکھتا ہے اور یہ سیّارہ پلوٹو کے مدار کو بھی پیچھے چھوڑ سکتاہے۔ یہ سیاہ گڑھے مختلف کمیتوں اور جسامت میں پائے جاتے ہیں۔

بلیک ہول کی دریافت ہی سے نت نئے بلیک ہولوں کی دریافت کا سلسلہ جاری ہے۔ دسمبر 2010 میں دوایسے انتہائی بڑے بلیک ہولوں کا سراغ لگایا گیا تھا جو کہ ریکارڈکے مطابق اب تک کا سب سے بڑا بلیک ہول کا جسم ہے، یہ سورج سے 6.3 ارب گنا بڑے تھے۔ ’’نیچر ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اب جن بلیک ہولوں کو امریکی ماہرین فلکیات کی ٹیم نے خلاء میں ڈھونڈ نکالا ہے، وہ ہماری پڑوسی کہکشائوں کے مرکز میں واقع ہیں اور سورج سے 10 ارب گنا زیادہ بڑے ہیں۔

٭بلیک ہول اور کہکشائوں کے مابین تعلق:

کہکشائوں کے مرکز میں عظیم اور دیوہیکل بلیک ہولوں کا وجود ممکن ہے اور ستاروں کی محوری گردش اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بلیک ہولز ان عظیم الشان جسم رکھنے والی کہکشائوں میں توازن برقرار رکھتے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا کائنات کا بھی کوئی مرکز (سینٹر) موجود ہے؟ ماہرفلکیات ڈاکٹر ڈیوس کہتے ہیں،’’کہکشائیں اور بلیک ہولز ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔

بلیک ہول کے وزن اور کہکشائوں کی خصوصیات میں باہمی تعلق ہے۔‘‘بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’یہ بات بظاہر عجیب لگتی ہے، کیوںکہ بلیک ہول کہکشائوںکے مقابلے میں ننھے منّے ہوتے ہیں اور ان کا وزن بھی اتنا زیادہ نہیںاور وہ جسامت بھی بہت چھوٹی رکھتے ہیں، جن کا جسم ہمارے نظام ِشمسی سے بھی کم ہے جبکہ یہ جس کہکشاں میں اپنا وجود رکھتے ہیں اس کا حجم اربوں گنا زیادہ بڑھا ہوا ہوتا ہے۔‘‘ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہولز کہکشاں کے ارتقاء میں کیا کوئی کردار اداکرتے ہیں؟ یہ سوال ابھی تک ایک راز یا معمّا بنا ہوا ہے کہ دونوں یعنی بلیک ہول اور کہکشائوں کی یک جا صورت میں نشوونما کیسے ہوتی ہے؟ ماہرین فلکیات نے اس قسم کے سائنسی جائزوں میں گرم اور روشن اس طرح کی کہکشائوں پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جو نگاہوں سے غائب تھیں اور اب تک تقریباً 100 کہکشائیں مل چکی ہیں۔

ان میں کچھ ہمارے سورج سے ایک ہزار کھرب گنا زیادہ روشن ہیں۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ ان کہکشائوں کے اندر ستاروں کا مجموعہ ’’جُھنڈ‘‘ تشکیل پانے سے پہلے ہی بلیک ہول بن گئے تھے۔ گویا انڈے مرغی سے پہلے پیدا ہوگئے۔

جدید ٹیلی اسکوپ وائز سے کائنات کے سربستہ گوشوں کو منظرعام پر لانے میں راہ نمائی اور مدد مل سکے گی۔ بلیک ہول کہکشاں کے وسط میں بھنبھناتی مکھیوں کی مانند نظر آتے ہیں اور ان کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ایسے بلیک ہول یا سیاہ گڑھوں کی شہادت ملی ہے جو کہ ہمارے سورج سے ایک لاکھ گناہ بڑے ہیں اور ہماری کہکشاں کے مرکز میں واقع ہیں۔ ہر کہکشاں کا اپنی قریب ترین کہکشاؤں سے فاصلہ تیزی سے بڑھ چکا ہے۔ یہ بلیک لولز کائنات کے سب سے پراسرار فلکی اجسام میں سے ہے اور سائنس دانوں کی نظروں کا محور بنے ہوئے ہیں اور ممکنہ خیال ہے کہ پوری کائنات بھی ایک روز یکتایت پر مرکوز ہوگی تو ایک بلیک ہول بن چکی ہوگی۔

٭بلیک ہولز اورگریوٹشنل لہروں کی تصدیق:

عمومی نظریہ اضافیت کے 100 برس (1905-2015) مکمل ہوتے ہی ڈرامائی طور پر کائنات اور بلیک ہولز کے بارے میں تحقیقات میں تیزی سے پیش قدمی ہوئی ہے اور خاص طور پر بلیک ہولوں کے بارے میں نت نئی معلوما ت سامنے آرہی ہیںاورسیاہ گڑھے یا بلیک ہولز جو کہ اب تک انسانوں کے لیے محض ایک معمّا بنے رہے ہیں، امکانات روشن ہیں کہ ہم جلد ان کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل کرلیں گے۔

سو سال پہلے آئن اسٹائن نے ثقلی یا گریوٹشنل لہروں کا نظریہ پیش کیا تھا، جسے وہ عملی طورپر ثابت نہ کرسکے۔ ستمبر 2015 میں ثقلی لہروں کے وجود ثابت ہونے کے ساتھ ہی سیاہ گڑھوں کی حقیقت اور ان کی سچائی مجسم حقیقت بن چکی ہے۔ اس دریافت کو اب تک فلکیاتی تاریخ کا سب سے طاقت ور ایونٹ قرار دیا جارہا ہے۔ اٹلی کے فلکیات داں گلیلیوگلیلی نے پہلی دفعہ فلکی دوربین کے ذریعے اجرام فلکی یعنی زمین، چاند ستاروں کا مشاہدہ کیا تھا اور فلکیات میں نئی تاریخ نے جنم لیا تھا بالکل اسی طرح اس کا موازنہ گلیلیو کی عظیم دریافت سے کیا جاسکتا ہے، جس سے ہماری سوجھ بوجھ پہلے سے بڑھ گئی تھی اور اس وقت افق کے پار مظاہر قدرت کو دیکھنے کے ڈرامائی طور پر پردہ سرک گیا تھا۔

اس عظیم دریافت کا سہرا امریکا میں قائم جڑواں فلکیاتی رصدگاہیں لیگو (Ligo) ’’لیزرانٹرفیرومیٹر گریوٹشنل ویوزآبزرویٹی‘‘ کے سر ہے۔ یہ ایک ارب کی خطیر رقم کا بین الاقوامی تحقیقاتی منصوبہ ہے جس پر کام 2002 میں شروع ہوا تھا۔ اس اہم پیش رفت میں بلیک ہولوں کا سب سے اہم کردار رہا ہے۔ یہ بلیک ہول زمین سے 1.3 نوری سالوں کی دوری پر ہیں اور ایک دوسرے کے گرد گردش کرتے ہوئے باہم ٹکرائے تھے، جس سے ثقلی لہریں پید ا ہوئیں۔ ان سیاہ گڑھوں کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں 36 گنا ہے اور یہ 29 گنا بھاری ہیں۔

گڑھوں کے ٹکرانے سے ان کا مجموعی وزن 65 گنا ہونا چاہیے تھا جوکہ 63 گنا رہ گیا اس کا واضح مطلب یہ ہو اکہ تین گنا کمیت توانائی میں بدل گئی اور اس عظیم توانائی کے اخراج کا اندازہ سورج کے 15 لاکھ سال میں پید ا کی جانے والی توانائی سے لگایا گیا ہے۔ سائنس داں پہلے ہی اس ہونے والے تاریخی ایونٹ کے بارے میں درست ترین پیش گوئی کرچکے تھے جسے موقع پر ریکارڈ کرلیا گیا تھا۔اس زبردست قوت کی حامل کشش ثقل کا مشاہد’’ لیگو‘‘ نے کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔

تحقیق کاروں کے مطابق یہ دریافت ’’کاغذ پر لکھی ہوئی موسیقی تھی، جسے حقیقی زندگی کے منظر میں سننے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔‘‘کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرفلکیات زیبکوس مارکا کے بقول اس وقت ہماری نگاہیں افق پر مرکوز تھیں، حالاںکہ کہ ہم موسیقی کے اُس راز سے ناواقف تھے۔ کائنات ایک خاص حدود کے بعد دھندلی اور غیرواضح ہوجاتی ہے اورجو کائنات ہمیں اب تک دکھائی دیتی ہے وہ 20 فی صدسے بھی کم ہے اور 80 فی صد سے زاید کائنات تاریک توانائی(Dark Eneargy) اور تاریک مادّے (Dark Matter) پر مشتمل ہے۔ سیاہ مادّہ کائنات میں کہکشاؤں کی پیدائش جب کہ سیاہ توانائی کائنات کے پھیلائو میں اہم کردار اداکرتی ہے۔

روشنی کی لہریں بلیک ہول میں جاکر جذب ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اس کی ڈیوائسز غیرموثر ہوجاتی ہیں لیکن اب ثقلی لہروں کی مد د سے ہم نئے راستے پر گام زن ہیں جس سے اب کائنات کو دیکھنے کے ساتھ سنا بھی جاسکتا ہے۔ ماہرطبیعیات گبریائیلی گونزالز( Gabraeli Gonzalez ) کے مطابق اب یہ لہریں فریکوئنسی میںڈھل چکی ہیں، جس نے ہمیں کائنات کی صدا ئوںکو سننے کے قابل بنادیا ہے اور ہماری کھوجی صلاحیتوں کو بڑھا وادیا ہے، جس سے تحقیق وجستجوکی نئی منزلوں کے لیے راہیں ہم وار ہوئی ہیں۔ اب ہم کشش ثقل کی لہروں کو سن کر کائنا ت کی دھڑکن کو محسوس کرسکتے ہیں، یہ نہایت خوب صورت خیال ہے!