غازی علم دینؒ گستاخ رسول راجپال کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے جبکہ ان کے گھر والوں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ علم الدین نےکیا فیصلہ کیا ہے. ان کے اندر کب سے طوفان انہیں بے چین کر رہا ہے اور اس کا منقطی انجام کیا ہو گا .
ان کی زندگی میں جو بے ترتیبی آئی ہے اس کا سبب کیا ہے؟؟؟ایک مرتبہ پھر خواب میں آکر بزرگ نے اشارہ کیا “علم الدین اُٹھو!جلدی کرو!دیر کی تو کوئی اور بازی لے جائے گا.ارادہ تو کر ہی چکے تھے . دوسری بار خواب میں بزرگ کو دیکھا تو ارادہ اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا.آخری بار اپنے دوست شیدے سے ملنے گئے. اسے اپنے چھتری اور گھڑی یاد گار کے طور پر دی گھر آئے رات گئے تک جاگتے رہے. نیند کیسے آتی؟؟؟؟ وہ تو زندگی کے سب سے بڑے مشن کی تکمیل کی بات سوچ رہے تھے.اس کے علاوہ اب کوئی دوسرا خیال پاس بھی پھٹک نہ سکتا تھا.اگلی صبح گھر سے نکلے . گمٹی بازار کی طرف گئے اور آٹمارام نامی کباڑئیے کی دکان پر پہنچے جہاں چھریوں اور چاقوؤں کا ڈھیر لگا ہوا تھا. وہاں سے انہوں نے اپنے مطلب کی چھری لے لی. اور چل دیئے، اب “نغمہ بیش ازتار ہو گیا، روح بے قابو ہو گئی”.انار گلی میں اسپتال روذ پر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا.معلوم ہو کہ راجپال ابھی نہیں آیا. آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے.اتنے میں راجپال کار پر آیا کھوکھے والے نے بتایا کہ اس کار میں سے نکلنے والا شخص راجپال ہے. اسی نے حضرت محمد ﷺ کے خلاف کتاب چھاپی ہے.راجپال ہردوار سے واپس آیا تھا.
دفتر میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھااور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لئے ٹیلیفون کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ علم الدین دفتر کے اندر داخل ہو گئے، اس وقت راجپال کے دو ملازم وہاں پر موجود تھے ،کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا. جبکہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا. راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ کے نوجوان کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا، لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے. پلک چپکتے ہی اس نوجوان نے چھری نکالی اور ہاتھ کو فضا میں بلند کر دیا. اور پھر راجپال کے سینے پر جا لگا. چھری کا پھل سینے میں اُتر چکا تھا. ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راج پال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز ہی آئی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا گرا.
..