ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی سے کتنے عرصے تک دور رہ سکتا ہے ، فتویٰ نے ہل چل مچا دی ، سب اندازے غلط ثابت ہو گئے


تاریخ الخلفاء میں جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ رات کے وقت گشت کر رہے تھے تو ایک گھر سے ایک عورت کی آواز آرہی تھی اور وہ کچھ اشعار پڑھ رہی تھی۔ مفہوم یہ تھا کہ اس کا شوہر گھر سے کہیں دور چلا گیا تھا اور وہ اسکے فراق میں غمزدہ تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھر آئے اور اپنی زوجہ سے دریافت کیا کہ شادی شدہ عورت شوہر کے بغیر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے تو زوجہ نے جواب دیا کہ تین سے چار ماہ۔ آپ نے حکم جاری کر دیا کہ ہر فوجی کو چار ماہ بعد ضرور چھٹی دی جائے تاکہ ہر فوجی اپنی بیوی کا حق ادا کر سکے۔ (تاریخ الخلفاء : 142)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ چار ماہ تک اگر شوہر عورت کا حق ادا نہ کرے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ خلع کا مطالبہ کرے یہ اس صورت میں ہے جب عورت راضی نہ ہو۔ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ وہ عورت کو راضی رکھے اور ہوسکے تو کم از کم سال میں ضرور اپنے گھر کا چکر لگائے، اگر ممکن ہو تو عورت کو اپنے ساتھ ہی رکھے۔ باہمی رضامندی سے اگر زیادہ وقت دور رہ سکتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر فتنہ کا خوف ہو تو پھر رضامندی بھی بے فائدہ ہے کیونکہ زیادہ عرصہ تک گھر واپس نہ آنا بہت سے نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔