’جب اُن کے شوہر یا باپ دیکھ رہے ہوتے تھے تو مجھے شام کی خواتین کے ساتھ یہ شرمناک کام کرنے کا بے حد مزہ آتا تھا‘ داعش کی کارکن خاتون نے ایسا انکشاف کردیا کہ انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں


شام و عراق کی شدت پسند تنظیم داعش کے مرد شدت پسندقیدیوں کو جو ایذائیں دیتے تھے ان سے دنیا واقف ہے لیکن اس تنظیم کی خواتین بھی مردوں سے کم نہیں تھیں۔ پہلی بار تنظیم سے منحرف ہونے والی ایک شدت پسند نے اس رخ کو بے نقاب کیا ہے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق 25سالہ حاجر داعش کی الخنساءبریگیڈ کی رکن تھی۔ اس بریگیڈ میں صرف خواتین شامل ہوتی تھیں۔ داعش سے منحرف اور فرار ہونے کے بعد انٹرویو میں حاجر نے بتایا ہے کہ ”مجھے قیدی خواتین پر تشدد کرنے میں بہت مزہ آتا تھا، بالخصوص جب میں ان کے والد یا شوہر کے سامنے ان پر تشدد کرتی تھی تو بہت لطف آتا تھا۔“

حاجر نے مزید بتایا کہ ”الخنساءبریگیڈ میں شامل برطانوی خواتین سب سے زیادہ ظالم ہوتی تھیں اور سب سے زیادہ قید خواتین پر تشدد کرتی تھیں۔یہ برطانوی خواتین قیدی عورتوں کو ’بائٹر‘ نامی ایک ہتھیار سے بھی تشدد کا نشانہ بناتی تھیں جس کے جسم میں چبھونے سے قیدی خواتین کو بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والی تکلیف سے کہیں زیادہ درد ہوتا تھا اور وہ تکلیف سے بلبلا اٹھتی تھیں اور اکثر بے ہوش ہو جاتی تھیں۔ برطانوی خواتین کے علاوہ کوئی بھی ہماری رکن یہ ہتھیار استعمال نہیں کرتی تھی۔“حاجر الخنساءگروپ کی 2014ءمیں اولین بھرتی ہونے والی شدت پسند خواتین میں شامل تھی۔ اس گروپ کو ہٹلر کے گسٹاپو سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مصنف احمد ابراہیم کو انٹرویو دیتے ہوئے حاجر کامزید کہنا تھا کہ ”میں نے داعش میں اس لیے شامل ہوئی تھی کہ یہ ان چند دہشت گرد گروپوں میں سے ایک تھا جو عورتوں کو بھی لڑنے اور ترقی کرکے بڑے عہدوں تک پہنچنے کی اجازت دیتا تھا۔“اس نے بتایا کہ ”جب اردن کے فوجی پائلٹ کو زندہ جلایا گیا تو اس وقت میں بھی وہاں موقع پر موجود تھی۔“