’’وہ مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا اور پیٹتا رہا اور اس کی بیوی چپ چاپ دیکھتی رہی‘‘


داعش کے چنگل سے نجات پانے والی یزیدی لڑکی نے اپنے ساتھ ہونے والی درندگی کے انکشافات کئے تو گھروں سے بھاگ کر جنگجوؤں کی دلہنیں بننے والی مغربی لڑکیوں کی بدکرداری سے بھی پردے اُٹھ گئے. جریدے ’’میل آن لائن‘‘ کے مطابق فریدہ (شناخت خفیہ رکھنے کیلئے نام تبدیل کیا گیا ہے) نامی لڑکی کو مشرقی شام کے علاقے دیرالزور میں چار ماہ تک جنسی غلام بناکر رکھا گیا.

فریدہ نے ’’میل آن لائن‘‘ کو بتایا کہ اسے گزشتہ سال اگست میں اس کے آبائی علاقے سنجار سے اغواء کیا گیا. اسے کئی ماہ تک مختلف جگہوں پر قید رکھے جانے کے بعد بالآخر ایک جنگجو کے حوالے کردیا گیا. فریدہ کا کہنا تھا کہ اغواء کی گئی

تمام لڑکیوں کو جنگجوؤں کے حوالے کردیا گیا اور اسے جس شخص کے حوالے کیا گیا اس کا نام ابومسلم تھا. اس شخص کے پاس پہلے ہی ایک برطانوی لڑکی موجود تھی جو خود کو اس کی بیوی کہتی تھی. فریدہ کے مطابق یہ لڑکی بہت اچھی انگریزی بولتی تھی اور ٹوٹی پھوٹی عربی بھی بولتی تھی. فریدہ نے عراق کے ایک پناہ گزین کیمپ میں دیئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ اسے جنسی غلام بنانے والا جنگجو نہایت وحشیانہ مزاج رکھتا تھا اور اکثر اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر پلاسٹک کے پائپ کے ساتھ تشدد کرتا تھا. اس کی برطانوی بیوی بھی اس کی ساتھی اور حمایتی تھی اور دونوں اسے جنسی غلام کے طور پر استعمال کرتے تھے.جب فریدہ کو برطانیہ سے فرار ہوکر شام جانے اور جنگجوؤں کی دلہنیں بننے والی 60لڑکیوں کی تصاویر دکھائی گئیں تو اس نے 17سالہ برطانوی لڑکی کو پہچان لیا جو اس پر جنسی تشدد کرنے والے جنگجو کی بیوی تھی.

فریدہ کا کہنا تھا کہ برطانوی لڑکی نے ایک دفعہ اسے بتایا تھا کہ ’’داعش کو نہ ماننے والا ہرشخص کافر ہے‘‘ اور اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیئے جو فریدہ کے ساتھ ہورہا تھا. برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ شناخت ہونے والی لڑکی گزشتہ سال جون میں اپنی جڑواں بہن کے ساتھ مانچسٹر سے فرار ہوکر شام پہنچ گئی تھی. داعش نے گزشتہ سال شمالی عراق کے علاقوں میں 5000 یزیدی افراد کو قتل کیا جبکہ سینکڑوں یزیدی لڑکیوں کو اغواء کرلیا تھا جن کی بڑی تعداد اب بھی ان کی غلامی میں ہے.

..