میانمر میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کے بھی کبھی ہماری طرح ہنستے بستے گھر اور کاروبار ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی دنیا ایسی اجڑی ہے کہ گھرجل کر راکھ ہو چکے ہیں اور ان گھروں کے مکین رزق خاک ہوچکے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی اس بربادی کی دردناک داستان بیان کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز کی رپورٹر حینا بیچ لکھتی ہیں کہ ”میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ دردناک مناظر کبھی نہیں دیکھے۔ میانمر سے بنگلہ دیش کی جانب آنے والے روہنگیا مسلمان کیچڑ سے اٹی ہوئی راہوں، سیلاب زدہ علاقوں، بپھرے ہوئے دریاﺅں اور خطرناک جنگلوں میں سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش کی جانب بڑھتے ان مظلوموں کی قطار اتنی لمبی ہے کہ تاحد نگاہ افق تک پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد تک پہنچنے میں جو کامیاب ہوجاتے ہیں وہ ہڈیوں کا پنجر نظر آتے ہیں۔ یہ بتانا مشکل نہیں کہ وہ کئی دنوں کے بھوکے ہیں۔“
میانمر میں جاری قتل و غارت سے بچ کر بنگلا دیش پہنچے والے ایک روہنگیا مسلمان سے حینا کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس کا احوال بیان کرتے ہوئے بتایا ” بھوک اور بیماری سے بد حال ان روہنگیا مسلمانوں کے پاس صرف قتل عام کی داستانیں ہیں ،جو کہ میانمر کی سکیورٹی فورسز ایک عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے دیہاتوں پر ہیلی کاپٹروں سے حملے کئے گئے ہیں اور نہ صرف ان کے گھر جلادئیے گئے ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قتل کردیا گیا ہے۔ 46 سالہ راشد احمد کے پاس بھی ایسی ہی دردناک کہانی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب پیچھے کچھ بھی نہیں بچا کیونکہ جہاں کبھی ان کے گھر تھے وہاں اب راکھ کے ڈھیر ہیں۔ سب کچھ جلا کر برباد کر دیا گیا ہے۔ وہ چار دن تک پیدل چلتا ہوا بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچا۔وہ بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ پیچھے اب کچھ نہیں بچا۔ لوگ بھی زندہ نہیں بچے اور گھر بھی جل کر راکھ ہو گئے۔“