پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو چکے ہیں اور کشیدگی کے اس ماحول میں جہاں ایک جانب مذہبی جماعتیں ماضی کی طرح سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں تو دوسری جانب حکومت کی طرف سے امریکہ کے خلاف مذاحمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے تاہم ماہرین کے مطابق اصل اور مشکل کام ملک کی پالیسی
کو بدلنا ہے جس پر ماضی میں کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان کے امریکہ سے صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والے تنازعے پر بات کرنے سے پہلے ماضی میں دونوں ممالک کی درمیان کشیدگی کی وجوہات بننے والے چند بڑے معاملات کا ذکر کرنا ضروری ہو گا۔نائن الیون حلموں کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا نیا دور شروع ہوا تو قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پر اسے پاکستان کی جانب سے خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دینے پر تعلقات خراب ہوئے لیکن یہ حملے جاری رہے تاہم ان کی اجازت کس نے دی آج تک واضح جواب معلوم نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد جنوری 2011 میں امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تو صورتحال پھر سے کشیدہ ہوئی تو امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کی باتیں ٹی وی پر ہو رہی تھیں ایسے میں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ تاہم مارچ میں عدالت نے انھیں دیت کی ادائیگی کے بعد بری کر دیا ہے لیکن اس رہائی کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے اس کے بارے میں عوام کو آج تک نہیں بتایا گیا اور اگر کچھ بتایا گیا تو موجودہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا چند دن پہلے دیا گیا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حقائق میں جائیں گے تو بطور قوم شرمندگی ہو گی۔ملک میں ابھی مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دینے کے مطالبے پر شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے ان کی رہائی کے خلاف میں بدل جانے کے بعد ختم ہوئے ہی نہیں تھے کہ مئی میں امریکہ نے قبائلی علاقوں سے آگے بڑھتے ہوئے ایبٹ آباد میں گھس کر اسامہ بن دلان کے خلاف کارروائی کی اور اس پر احتجاج اور قراردایں منظور ہوئیں لیکن اصل حقائق آج بھی پوشیدہ ہیں۔ ابھی ایبٹ آباد واقعے کی دھول بیٹھی ہی تھی تو نومبر میں مہمند ایجنسی میں پاکستان کی دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں دو فوجی افسران سمیت 24 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے اور اس کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کا نعرہ شدت سے بلند کیا بلکہ امریکہ اور نیٹو کی سپلائی کو روک دیا۔ کشیدگی چند ماہ تک جاری رہی اور امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی’معذرت’ پر معاملات معمول پر آنا شروع ہو گئے لیکن کیا پالیسی میں کوئی ٹھوس تبدیلی آئی؟ اس وقت بھی امریکی صدر ٹرمپ کی خطے کی پالیسی پر پاکستان میں ایسی صورتحال ہے جس پر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں عوامی جذبات کو امریکہ مخالف ابھارنا، مزاحمتی بیانات یا قومی اسمبلی میں کسی قرارداد کا پیش کرنا مخالف پر دباؤ ڈالنے اور غصے کے اظہار کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ ‘اصل مشکل کام ملک کی پالیسیوں کو بدلنا ہوتا ہے لیکن ماضی کے تجربات کو دیکھا جائے تو عارضی طور پر کچھ تبدیلی لائی جاتی ہیں لیکن بعد میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت پیدا ہو جاتی ہے اور مسئلے کو حل کر لیا جاتا ہے کیونکہ خطے میں ایک طرف امریکہ کا پاکستان پر انحصار ہے تو دوسری طرف پاکستان امریکہ سے اقتصادی اور سفارتی شعبوں پر امریکہ پر انحصار کرتا ہے تو موجودہ دباؤ بھی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور بعد میں کوئی طریقۂ کار نکال لیں گے۔’ تاہم تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ماضی کے برعکس اس وقت صورتحال مختلف ہے جس میں پاکستان کو مشکل ترین فیصلے کرنے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ صورتحال کو اس وقت تاریخ کے سب سے خطرناک موڑ پر ہیں اگر ہم اس سے پہلے بھی امریکہ کے اتحادی رہے ہیں اور اختلافات بھی رہے ہیں لیکن اس بار لگتا ہے کہ تیسری افغان جنگ شروع ہونے والی ہے اور اس جنگ میں یا ہمیں شریک ہونا یا غیر جانبدار رہنا ہے یا تسیرا راستہ اختیار کرنا ہے جو کہ امریکہ کو بالکل قبول نہیں ہو گا۔ ‘اگر ہم امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں تو اس میں ملک میں اندرونی کشکمش پیدا ہو گی اور دائیں بازو کے قریب ناراض ہوں گے اور امریکہ کا ساتھ دینے میں امریکی امداد و فوائد ملیں گے اور اگر اسے نہ کر دیتے ہیں تو اس کے بھی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں تو اس وقت لگتا ہے کہ پاکستان مشکل ترین فیصلہ کرنے والا ہے کہ کدھر جانا ہے۔’ کیا حکومت کی جانب سے تاحال ایسا عندیہ دیا گیا ہے کہ جس سے اندازہ ہو کہ وہ مشکل فیصلے کرنے میں سنجیدہ ہے؟ اس پر ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ’بنیادی سوال یہ کہ پاکستانی حکومت کے پاس کیا راستے ہیں تو اس وقت اگر دیکھا جائے حکومت مذہبی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کے ذریعے اور قومی اسمبلی میں قرارداد کے ذریعے مہلت حاصل کر رہی لیکن خارجہ پالیسی کے باریک نکتے جیسا کہ اسلحے کی خریداری یا تحفے میں ملنا، اقتصادی تعلقات اور ملکی اشرافیہ کے امریکہ سے قریبی تعلقات جیسے نکات میں کوئی واضح تبدیلی ہو سکتی ہے اس پر کوئی واضح جواب نہیں مل سکا۔’ حالیہ کشیدگی میں ایک بار پھر ایک متحرک اور موثر دفتر خارجہ کی کمی دیکھنے میں آئی اور صدر ٹرمپ کے پالیسی بیان پر اپنا ردعمل دینے میں بھی کافی وقت لگا۔ اس وقت کے دفتر خارجہ کی افادیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ بظاہر صدر ٹرمپ افغانستان میں ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے پاکستان کو افغانستان میں اس طرح سے دھکیلنا چاہتے ہیں جیسے امریکہ نے جنرل ضیا الحق کے ذریعے کیا تھا اور اس خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کی خارجہ پالیسی کا ایسے معالات میں کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن صورتحال اس سے الٹ ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے حسن عسکری نے دفتر خارجہ کی کمزور حیثیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستانی حکومت کا یہ مسئلہ بھی رہتا ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں زیادہ وقت لیتی ہے جس میں اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ کے پالیسی بیان پر چین کا فوری درعمل آ گیا تھا جب کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کو درعمل دینے میں تقریباً سولہ گھنٹے لگے جس سے لگتا ہے کہ دفتر خارجہ مفلوج ہونے کی سی صورتحال کا شکار ہے۔’ ڈاکٹر حسن عسکری نے امریکہ سے برابری کی بنیاد پر تعلقات میں ایک وجہ ملک کی اشرافیہ کے اس کے ساتھ جڑے تعلقات کو قرار دیا۔ کیا واقعی ملک میں ایک مخصوص طبقہ امریکہ سے تعلقات کو کسی بھی قیمت پر ترجیح دیتا ہے اور دو ٹوک موقف نہیں اپنایا جاتا؟ اس پر ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ‘کیونکہ پاکستان میں جو بھی حکومت ہوتی ہے اس میں شامل لوگوں کا خیال یہی ہے کہ وہ کامیابی سے اس وقت حکومت کر سکتے ہیں جب امریکہ کی حمایت انھیں حاصل ہو جو حکومت میں نہیں ہوتے ان کے خیال میں وہ امریکہ کی مدد سے اقتدار حاصل کر سکتے ہیں اور اس سوچ کی وجہ سے امریکہ کی جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا تیار رہتے ہیں۔