یہ 1997 ءکی بات ہے کہ ماہر ماحولیات ڈینئل جینزن اور ونی ہال واش کے ذہن میں ایک اچھوتا آئیڈیا آیا، لیکن تب تک ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کس طرح یہ آئیڈیا صحرا جیسی بنجر زمین کو ہرے بھرے خوبصورت جنگل میں بدل سکتا ہے۔ وہ دونوں کینو کا جوس بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ کینو کے چھلکے ایک بنجر علاقے میں پھینکنا شروع کر دیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کا زمین کی زرخیزی پر مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔ کمپنی نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا اور یوں بنجر علاقے میں کینوں کے چھلکے پھینکنے کا آغاز ہو گیا۔ کمپنی نے بنجر علاقے میں مجموعی طور پر 12 ہزار میٹرک ٹن چھلکے پھینکے، اور اس کے بعد اگلے 16 سال کیلئے اس علاقے کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا۔
جب 16 سال بعد سائنسدان اس علاقے کا معائنہ کرنے کیلئے دوبارہ پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ جہاں کبھی بنجر زمین ہوا کرتی تھی وہاں اب تا حد نگاہ ہرا بھرا جنگل پھیلا ہوا تھا ۔ اس علاقے میں دودرجن سے زائد اقسام کے لاکھوں درخت اور پودے اگے ہوئے تھے۔ یہاں کی مٹی بہت زیادہ زرخیز ہو چکی تھی اور آب و ہوا بھی نہایت خوشگوار تھی ۔
سائنسدانوں نے مزید تین سال تک اس علاقے پر تحقیقات کیں اور ان تحقیقات پر مبنی مفصل رپورٹ سائنسی جریدے ’ریسٹو ریشن ایکالوجی‘ میں شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں تحقیقاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں سے مختلف مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں اگر سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کریں تو پھلوں اور سبزیوں کے فاضل اجزاءسے بہت سے بنجر علاقوں کی تقدیر یکسر تبدیل کی جا سکتی ہے ۔