دسمبرکے اوائل کی بات ہے کہ محکمہ اوقاف نے میری تعیناتی جامعہ مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی. وجہ یہ تھی کے میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاوڈ سپیکر پے تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا. شومئی قسمت کے وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا. نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا. بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ. جو سنتا تھا ہنستا تھا یا پھر اظھار افسوس کرتا تھا محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی. تنخواہ کا ایک معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو میری پوسٹنگ کا سن کے ایک آنکھ دبا کر بولا .قبلہ مولوی صاحب، آپ کی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں.’ میں تو گویا زمین میں چھ فٹ نیچے گڑ گیا’ پھر الله بھلا کرے میری بیوی کا جس نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا کے امامت ہی توہے، کسی بھی مسجد میں سہی. اور میرا کیا ہے؟ میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی. پردے کا کوئی مسلہ نہیں ہوگا. اور پھر ہمارے کونسے کوئی بچے ہیں کے ان کے بگڑنے کا ڈر ہو بیوی کی بات سن کر تھوڑا دل کو اطمینان ھوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا. بچوں کا ذکر چھڑ ہی گیا تو یہ بتاتا چلوں کے شادی کے بائیس سال گزرنے کے باوجود الله نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا.
خیر اب تو شکوہ شکایت بھی چھوڑ چکے تھے دونوں میاں بیوی. جب کسی کا بچہ دیکھ کر دل دکھتا تھا تو میں یاد الہی میں دل لگا لیتا اور وہ بھلی مانس کسی کونے کھدرے میں منہ دے کر کچھ آنسو بہا لیتی سامان باندھ کر ہم دونوں میاں بیوی نے الله کا نام لیا اور لاہورجانے کے لئے ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہوگئے. بادامی باغ اڈے پے اترے اور ہیرا منڈی جانے کے لئے سواری کی تلاش شروع کی. ایک تانگے والے نے مجھے پتا بتانے پر اوپر سے نیچے تلک دیکھا اور پھر برقع میں ملبوس عورت ساتھ دیکھ کر چالیس روپے کے عیوض لے جانے کی حامی بھری. تانگہ چلا تو کوچبان نے میری ناقص معلومات میں اضافہ یہ کیہ کر کیا کے ‘میاں جی، جہاں آپ کو جانا ہے، اسے ہیرا منڈی نہیں، ٹبی گلی کہتے ہیں پندرہ بیس منٹ میں ہم پوہنچ گئے. دوپہر کا وقت تھا. شاید بازار کھلنے کا وقت نہیں تھا. دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا. وہ ہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں، میلے کرتوں کےغلیظ دامن سے ناک پونچھتے ننگ دھڑنگ بچے، نالیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پے مڈلاتی بےحساب مکھیاں. سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے اور ان سے بحث کرتی کھڑکیوں سے آدھی باہرلٹکتی عورتیں. فرق تھا تو صرف اتنا کے پان سگریٹ اور پھول والوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں. دوکانیں تو بند تھیں مگر ان کے نۓ پرانے بورڈ اصل کاروبار کی خبر دے رہے تھے مسجد کے سامنے تانگہ کیا رکا، مانو محلے والوں کی عید ہوگیی. پتہ نہیں کن کن کونے کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل کر جمع ہونے لگیں. ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پے اٹھا لیا. ‘ابے نیا مولوی ہے’ ‘بیوی بھی ساتھ ہے. پچھلے والے سے تو بہتر ہی ہوگا’ ‘کیا پتہ لگتا ہے بہن، مرد کا کیا اعتبار؟’ ‘ہاں ہاں سہی کہتی ہے تو. داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک’ عجیب طوفان بدتمیز تھا. مکالموں اور فقروں سے یہ معلوم پڑتا تھا کے جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں، شرفاء کے محلے میں کوئی طوائف وارد ہوئی ہو. اس سے پہلے کے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا، خدا خوش رکھے غلام شببر کو جو ‘مولوی صاحب’ ‘مولوی صاحب’ کرتا دوڑا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا. پتہ چلا کے مسجد کا خادم ہے اور عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی نہایت محنت اور دیانت داری سے ادا کر رہا تھا. بھائی طبیعت خوش ہوگیی اس سے مل کے. دبلا پتلا پکّی عمر کا مرد. لمبی سفید داڑھی. صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا، کندھے پے چار خانے والا سرخ و سفید انگوچھا. پیشانی پے محراب کا کالا نشان، سر پے سفید ٹوپی اور نیچی نگاہیں. سادہ اور نیک آدمی اور منہ پے شکایت کا ایک لفظ نہیں. بوڑھا آدمی تھا مگر کمال کا حوصلہ و ہمّت رکھتا تھا سامان سمبھالتے اور گھر کو ٹھیک کرتے ہفتہ دس دن لگ گئے. گھر کیا تھا. دو کمروں کا کوارٹر تھا مسجد سے متصل. ایک چھوٹا سا باورچی خانہ، ایک اس سے بھی چھوٹا غسل خانہ اور بیت الخلا اور ایک ننھا منا سا صحن. بہرحال ہم میاں بیوی کو بڑا گھر کس لئے چاہیے تھا. بہت تھا ہمارے لئے. بس ارد گرد کی عمارتیں اونچی ہونے کی وجہ سے تاریکی بہت تھی. دن بارہ بجے بھی شام کا سا دھندلکا چھایا رہتا تھا. گھر ٹھیک کرنے میں غلام شببر نے بہت ہاتھ بٹایا. صفائی کرنے سے دیواریں چونا کرنے تک. تھوڑا کریدنے پے پتا چلا کے یہاں آنے والے ہر امام مسجد کے ساتھ غلام شبّیرگھر کا کام بھی کرتا تھا. بس تنخواہ کے نام پے غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد ہی میں سوتا تھا. یوں اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی اور مسجد کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی ایک بات جب سے میں آیا تھا، دماغ میں کھٹک رہی تھی. سو ایک دن غلام شببر سے پوچھ ہی لیا ‘میاں یہ بتاؤ کے پچھلے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرا گزرا؟’ وہ تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک طرف لے گیا کے بیگم کے کان میں آواز نہ پڑے میاں جی اب کیا بتاؤں آپ کو؟ جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی. محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے. بس دل آ گیا ایک لڑکی پے. لڑکی کے دلال بھلا کہاں جانے دیتے تھے سونے کی چڑیا کو. پہلے تو انہوں نے مولانا کو سمجھنے بجھانے کی کوشش کی. پھر ڈرایا دھمکایا. لیکن مولانا نہیں مانے. ایک رات لڑکی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی. بادامی باغ اڈے پر ہی پکڑے گئے. ظالموں نے اتنا مارا پیٹا کے مولانا جان سے گئے’. غلام شبّیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟’ میں نے گھبرا کر پوچھا’ غلام شبّیر ہنسنے لگا. ‘کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی. پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے. بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب. اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے لاحول ولا قوّت الا باللہ…..کہاں اس جہنم میں پھنس گئے.’ میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا’ آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھاہیں. دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے. ان کو قران پڑھا دیں. باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں. بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں.’ غلام شبّیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آی انہی شروع کے ایام میں ایک واقعیہ ہوا. پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پے کسی نے دستک دی. غلام شبّیر نے جا کے دروازہ کھولا اور پھر ایک کھانے کی ڈھکی طشتری لے کے اندر آ گیا. میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا ‘نوراں نے کھانا بھجوایا ہے. پڑوس میں رہتی ہے’ میں کچھ نا بولا اور نا ہی مجھے کوئی شک گزرا. سوچا ہوگی کوئی الله کی بندی. اور پھر امام مسجد کے گھر کا چولھا تو ویسے بھی کم ہی جلتا ہے. بہرحال جب اگلے دو دن بھی یہ ہی معمول رہا تومیں نے سوچا کے یہ کون ہے جو بغیر کوئی احسان جتاے احسان کیے جا رہی ہے.عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں ہی تھا جب غلام شبّیر کو آواز دے کے بلایا اور پوچھا ‘میاں غلام شبّیر یہ نوراں کہاں رہتی ہے؟ میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کر اس کا شکریہ ادا کرآے’ غلام شبّیر کے تو اوسان خطا ہو گئے یہ سن کر. ‘ میاں جی ، بی بی نہیں جا سکتی جی وہاں میں نے حیرانی سے مزید استفسار کیا تو گویا غلام شبّیر نے پہاڑ ہی توڑ دیا میرے سر پے ‘ میاں جی ، اس کا پورا نام تو پتا نہیں کیا ہے مگر سب اس کو نوراں کنجری کے نام سے جانتے ہیں. پیشہ کرتی ہے جی’ ‘پیشہ کرتی ہے؟ یعنی طوائف ہے؟ اور تم ہمیں اس کے ہاتھ کا کھلاتے رہے ہو؟ استغفراللہ! استغفراللہ’ غلام شبّیر کچھ شرمسار ہوا میرا غصّہ دیکھ کر. تھوڑی دیر بعد ہمّت کر کے بولا: میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی لوگ رہتے ہیں. ان کے ہاتھ کا نہیں کھاییں گے تو مستقل چولھا جلانا پڑے گا جو آپ کی تنخواہ میں ممکن نہیں یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا. ‘ہم شریف لوگ ہیں غلام شبّیر، بھوکے مر جایئں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھاییں گے میرے تیور دیکھ کر غلام شبّیر کچھ نہ بولا مگر اس دن کے بعد سےنوراں کنجری کے گھر سے کھانا کبھی نا آیا جس مسجد کا میں امام تھا، عجیب بات یہ تھی کے اس کا کوئی نام نہیں تھا. بس ٹبی مسجد کے نام سے مشهور تھی. ایک دن میں نے غلام شبّیر سے پوچھا کے “میاں نام کیا ہے اس مسجد کا؟” وہ ہنس کر بولا، “میاں جی الله کے گھر کا کیا نام رکھنا؟” پھر بھی؟ کوئی تو نام ہوگا. سب مسجدوں کا ہوتا ہے.” میں کچھ کھسیانا ہو کے بولا’ بس میاں جی بہت نام رکھے. جس فرقے کا مولوی آتاہے، پچھلا نام تبدیل کر کے نیا رکھ دیتا ہے.آپ ہی کوئی اچھا سا رکھ دیں.” وہ سر کھجاتا ہوا بولا. میں سوچ میں پڑ گیا. گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے؟ “کیا نام رکھا جائے مسجد کا؟ ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا. گناہوں کے کیچڑ میں چمکتا پاک صاف موتی.” دل ہی دل میں میں نے مسجد کے نام کا فیصلہ کیا اور اپنی پسند کو داد دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں بیوی کھانا لگاے میری منتظر تھی اب بات ہوجاے قرآن پڑھنے والے بچوں کی. تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے. ملی جلی عمروں کے پانچ سے گیارہ بارہ سال کی عمر کے. تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے.نہا دھو کے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کے آتے تھے. دو گھنٹے سپارہ پڑھتے تھے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے. کون تھے کس کی اولاد تھے؟ نہ میں نے کبھی پوچھا نا کسی نے بتایا. لیکن پھر ایک دن غضب ہوگیا. قرآن پڑھنے والے بچوں میں ایک بچہ نبیل نام کا تھا. یوں تو اس میں کوئی خاص بات نا تھی. لیکن بس تھوڑا زیادہ شرارتی تھا. تلاوت میں دل نہیں لگتا تھا. بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں لگا رہتا. میں بھی درگزر سے کام لیتا کے چلو بچہ ہے.لیکن ایک دن ضبط کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا. اس دن صبح ہی سے میرے سر میں ایک عجیب درد تھا. غلام شبّیر سے مالش کرائی، پیناڈول کی دو گولیاں بھی کھایئں مگر درد زور آور بیل کی مانند سر میں چنگھاڑتا رہا. درد کے باوجود اور غلام شبّیر کے بہت منع کرنے پر بھی میں نے بچوں کا ناغہ نہیں کیا. نبیل بھی اس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی شرارتیں کر رہا تھا. کبھی ایک کو چھیڑ کبھی دوسرے کو. جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گیئں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور میں نے پاس رکھی لکڑی کی رحل اٹھا کر نبیل کے دے ماری. میں نے نشانہ تو کمر کا لیا تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کے رحل بچے کی پیشانی پر جا لگی خون بہتا دیکھ کر مجھے میرے سر کا درد بھول گیا اور میں نے گھبرا کر غلام شببر کو آواز دی. وہ غریب بھاگتا ہوا آیا اور بچے کو اٹھا کے پاس والے ڈاکٹر کے کلینک پر لے گیا. خدا کا شکر ہوا کے چوٹ گہری نہیں لگی تھی. مرہم پٹی سے کام چل گیا اور ٹانکے نا لگے. خیر باقی بچوں کو فارغ کر کے مسجد کے دروازے پے پوہنچا ہی تھا کے چادر میں لپٹی ایک عورت نے مجھے آواز دے کر روک لیا. میں نے دیکھا کے وہ عورت دہلیزپۓ کھڑی مسجد کے دروازے سے لپٹی رو رہی تھی چالیس پینتالیس کا سن ہوگا. معمولی شکل و صورت. سانولا رنگ اور چہرے پے پرانی چیچک کے گہرے داغ. آنسوؤں میں ڈوبی آنکھیں اور گالوں پر بہتا کالا سرما. زیور کے نام پے کانوں میں لٹکتی سونے کی ہلکی سی بالیاں اور ناک میں چمکتا سستا سرخ نگ کا لونگ. چادر بھی سستی مگر صاف ستھری اور پاؤں میں ہوائی چپپل .کیا بات ہے بی بی؟ کون ہو تم؟” میں نے حیرانگی سے اس سے پوچھا’ .میں نوراں ہوں مولوی صاحب.” اس نے چادر کے پلو سے ناک پونچھتے ہوئے کہا’ نوراں؟ نوراں کنجری؟” میرے تو گویا پاؤں تلے زمین ہی نکل گیئ. میں نے ادھر ادھر غلام شبّیر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نبیل کی مرہم پٹی کرا کے اور اس کو اس کے گھر چھوڑنے کے بہانے نجانے کہاں غایب تھا جی. نوراں کنجری!” اس نے نظریں جھکاے اپنے نام کا اقرار کیا. مجھے کچھ دیر کے لئے اپنے منہ سے نکلنے والی اس کے گالی جیسی عرفیت پے شرمدگی ہوئی مگر پھر خیال آیا کے وہ طوائف تھی اور اپنی بری شہرت کی زمہ دار. شرمندگی اس کو ہونی چاہیے تھی، مجھے نہیں. پھر اچانک مجھے احساس ہوا کے میری موتی جیسی مسجد میں اس طوائف کا نا پاک وجود کسی غلاظت سے کم نہیں تھا باہر نکل کے کھڑی ہو. مسجد کو گندا نا کر بی بی”، میں نے نفرت سے باہر گلی کی جانب اشارہ کیا. اس نے کچھ اس حیرانگی سے آنکھ اٹھا کے میری طرف دیکھا کے جیسے اسے مجھ سے اس رویے کی امید نا ہو. ڈبڈبائی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے کسی انکہی فریاد کی لو بھڑکی. لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے آنسوؤں کے پانی میں احتجاج کے ارادے کو غرق کیا اور بغیر کوئی اور بات کئے چلی گی. میں نے بھی نا روکا کے پتا نہیں کس ارادے سے آیئ تھی. اتنی دیر میں غلام شبّیر بھی پوھنچ گیا .کون تھی میاں جی؟ کیا چاہتی تھی؟” غالباً اس نے عورت کو تو دیکھا تھا مگر دور سے شکل نہیں پہچان پایا’ نوراں کنجری تھی. پتا نہیں کیوں آی تھی؟ مگر میں نے بھی وہ ڈانٹ پلائی کے آیندہ اس پاک جگہ کا رخ نہیں کرے گی.” میں نے داد طلب نظروں سے غلام شبّیر کی طرف دیکھا مگر اس کے چہرے پر ستائش کی جگہ افسوس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے وہ بیچاری دکھوں کی ماری اپنے بچے کا گلہ کرنے آی تھی میاں جی. نبیل کی ماں ہے . بچے کی چوٹ برداشت نہیں کر سکی. اور آپ نے اس غریب کو ڈانٹ دیا.” غلام شبّیر نے نوراں کی وکالت کرتے ہوئے کہا تو نبیل نوراں کا بیٹا ہے.ایسی حرکتیں کرے گا تو سزا تو ملے گی. جیسی ماں ویسا بیٹا”. میں نے اپنی شرمندگی کو بیہودگی سے چھپانے کی کوشش کی. ایک لمحے کو خیال بھی آیا کے بچہ تو معصوم ہے اور پھر میں نے زیادتی بھی کی تھی. مگر پھر اپنے استاد ہونےکا خیال آیا تو سوچا کے بچے کی بھلائی کے لئے ہی تو مارا ہے. کیا ہوا. اور پھر ایک طوائف کو کیا حق حاصل کے مسجد کے امام سے شکایت کر سکے .کتنے بچے ہیں نوراں کے؟” میں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی’ مسجد میں پڑھنے والے سب بچے نوراں کے ہیں میاں جی. اس کے علاوہ ایک گود کا بچہ بھی ہے. بس اس محلے میں صرف نوراں اپنے بچوں کو مسجد بھیجتی ہے. باقی سب لوگوں کے بچے تو آوارہ پھرتے ہیں.” غلام شبّیر کی آواز میں پھر نوراں کی وکالت گونج رہی تھی. میں نے بھنا کر جواب دینے کا ارادہ کیا ہی تھا کے کوتوال صاحب کی گاڑی سامنے آ کر رکی. خود تو پتا نہیں کیسا آدمی تھا مگر بیوی بہت نیک تھی. ہر دوسرے تیسرے روز ختم کے نام پر کچھ نہ کچھ میٹھا بھجوا دیتی تھی. اس دن بھی کوتوال کا اردلی جلیبیاں دینے آیا تھا. گرما گرم جلیبیوں کی اشتہا انگیز مہک نے میرا سارا غصہ ٹھنڈا کر دیا اور نوراں کنجری کی بات آیی گیی ہوگیی یہ نبیل کو مار پڑنے کے کچھ دنوں بعد کا ذکر ہے. عشاء پڑھا کے میں غلام شبّیر سے ایک شرعیی معاملے پر بحث میں الجھ گیا تو گھر جاتے کافی دیر ہوگیی. مسجد سے باہر نکلے تو بازار کی رونق شروع تھی. بالکونیوں پر جھلملاتے پردے لہرا رہے تھے اور کوٹھوں سے ہارمونیم کے سر اور طبلوں کی تھاپ کی آواز ہر سو گونج رہی تھی. پان سگریٹ اور پھولوں کی دکانوں پر بھی دھیرے دھیرے رش بڑھ رہا تھا. اچانک میری نظر نوراں کے گھر کے دروازے پرجا پڑی. وہ باہر ہی کھڑی تھی اور ہر آتے جاتے مرد سے ٹھٹھے مار مار کر گپپیں لگا رہی تھی. آج تو اس کا روپ ہی دوسرا تھا. گلابی رنگ کا چست سوٹ، پاؤں میں سرخ گرگابی، ننگے سر پے اونچا جوڑا، جوڑے میں پروۓ موتیے کے پھول، میک اپ سے لدا چہرہ، گہری شوخ لپ سٹک، آنکھوں میں مسکارا اور مسکارے کی اوٹ سے جھانکتی ننگی دعوت لاحول ولا قوت اللہ باللہ” میں نے طنزیہ نگاہوں سے غلام شبّیر کی جانب دیکھا. آخر وہ نوراں کا وکیل جو تھا’ چھوڑئیے میاں جی. عورت غریب ہے اور دنیا بڑی ظالم.” اس نے گویا بات کو ٹالنے کی کوشش کی. مگر میں اتنی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں تھا یہ بتاؤ میاں، جب اس کے گاہک آتے ہیں تو کیا بچوں کے سامنے ہی…………………….؟”
میں نے معنی خیز انداز میں اپنا سوال ادھورا ہی چھوڑ دیا میاں جی، ایک تو اس کے بچے صبح اسکول جاتے ہیں اور اس لئے رات کو جلدی سو جاتے ہی% .قاتل کا کچھ پتا چلا؟’ میں ابھی بھی حیرانگی کی گرفت میں تھا.’ پولیس کے پاس اتنا وقت کہاں میاں جی کے طوائفوں کے قاتلوں کو ڈھونڈہے. اس بیچاری کی تو نمازجنازہ میں بھی بس تین افراد تھے: میں اور دو گورکن.’ اس نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا .اور اس کے بچے؟ ان کا کیا بنا؟’ میں نے اپنی آنکھوں میں امڈ تی نمی پونچھتے ہوئے دریافت کیا’ نوراں کے بچے نہیں ہیں میاں جی.’ غلام شببر نے مرے کان میں سرگوشی کی. ‘طوائفوں کے محلے میں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو زیادہ تر اسے راتوں رات اٹھا کر کوڑے کے ڈھیرپر پھینک دیا جاتا ہے. وہ سب ایسے ہی بچے تھے. نوراں سب جانتی تھی کے کس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے. بس لڑکا ہوتا تو اٹھا کر اپنے گھر لے آ تی. کہنے کو تو طوائف تھی میاں جی مگر میں گواہ ہوں. غریب جتنا بھی کماتی بچوں پے خرچ کر دیتی. بس تھوڑے بہت الگ کر کے حج پے جانے کے لئے جمع کر رکھے تھے. وہ بھی اس کا قاتل لوٹ کر لے گیا یہ بتاؤ غلام شببر، جب میں نے اس کی درخواست جمع کرانے سے انکار کیا تو اس نے کیا کہا؟’ مجھ پے حقیقتوں کے در کھلنا شروع ہو چکے تھے بس میاں جی، کیا کہتی بیچاری. آنکھوں میں آنسو آ گئے. آسمان کی جانب ہاتھ اٹھاے اور کہنے لگی کے بس تو ہی اس کنجری کو بلاے تو بلا لے’. مجھ پر تو پوچھو گھڑوں پانی پڑ گیا. تاسف کی ایک آندھی چل رہی تھی. ہوا کے دوش میری خطائیں اڑرہی تھیں. گناہوں کی مٹی چل رہی تھی اور میری آنکھیں اندھیائی جا رہی تھیں آپ کیوں روتے ہیں میاں جی؟ آپ تو ناپاک کہتے تھے اس کو.’ غلام شبّیر نے حیرانگی سے میری آنسوں سے تر داڑھی دیکھتے ہوئے کہا کیا کہوں غلام شببر کے کیوں روتا ہوں. وہ ناپاک نہیں تھی. ناپاک تو ہم ہیں جو دوسروں کی ناپاکی کا فیصلہ کرتے پھرتے ہیں. نوراں تو الله کی بندی تھی. الله نے اپنے گھر بلا لیا.’ میری ندامت بھری ہچکیاں بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور غلام شببر نا سمجھتے ہوئے مجھے تسّلی دیتا رہا ٹیکسی محلے میں داخل ہوئی اور مسجد کے سامنے کھڑی ہوگیی. اترا ہی تھا کے نوراں کے دروازے پے نظر پڑی. ایک ہجوم اکٹھا تھا وہاں ‘کیا بات ہے غلام شببر؟ لوگ اب کیوں اکٹھے ہیں؟’ میاں جی میرے خیال میں پولیس والے ایدھی سنٹر والوں کو لے کے آے ہیں. وہ ہی لوگ بچوں کو لے جاییں گے. ان غریبوں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے.’ غلام شببر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا میں نے زوجہ کا ہاتھ پکڑا اور غلام شببر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے نوراں کے دروازے کی جانب بڑھ گیا .کہاں چلے میاں جی؟’ غلام شببر نے حیرانگی سے پوچھا’ نوراں کے بچوں کو لینے جا رہا ہوں. آج سے وہ میرے بچے ہیں. اور ہاں مسجد کا نام میں نے سوچ لیا ہے. آج سے اس کا نام نور مسجد ہوگا