غزوۂ تبوک کے لیے دس ہزار صحابہ جمعرات کے دن نبی کریمؐ کی معیت میں چلے، تین ہزار صحابہؓ ایسے تھے جو مدینہ منورہ میں ہی رہ گئے، ان میں سے ایک کعب بن مالکؓ تھے، ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا، وہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں، اس سے پہلے ایسی دو اونٹنیاں کبھی نہیں ہوئی تھیں اور گھر میں بیویاں بھی تھیں میں نے سوچا کہ میں نے جہاد پر تو جانا ہی ہے، چلو ایک اور دن بھی گھر میں گزار لیتا ہوں،اس طرح گھر والے بھی خوش ہو جائیں گے اور میرے پاس تیز سواری ہے جس کی وجہ سے میں جلدی پہنچ جاؤں گا، با الفاظ دیگر انہوں نے یہ کہا کہ مال و جمال نے مجھے روک لیا، فرماتے ہیں کہ میں آج کل آج کل ہی کرتا رہا اور کہتا رہا کہ میں پہنچ جاؤں گا، مدینہ میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے، ان میں سے ایک دو کے علاوہ باقی سب منافقین ہی تھے، میں جانے کے لیے سوچتا ہی رہا، بالآخر پتہ چلا کہ وہ قافلہ واپس آ رہا ہے،
اب مجھے محسوس ہوا کہ مجھ سے تو بڑی غلطی ہوئی ہے، مجھے تو چلے جانا چاہیے تھا.جب نبی کریمؐ واپس تشریف لے آئے تو منافقین آپؐ کے پاس گئے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے اپنے عذر پیش کیے کہ ہم اس اس وجہ سے غزوہ میں نہ جا سکے، اللہ کے محبوبؐ ان کی قسموں کوسن کر.
.. ٹھیک ہے، ٹھیک ہے… فرماتے رہے.میں نے دل میں سوچا کہ میں جھوٹی قسم کھا کر نبی کریمؐ کو تو خاموش کر دوں گا لکین اللہ تعالیٰ تو دلوں کی کیفیت کو جانتے ہیں، جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے لہٰذا مجھے نبی کریمؐ کے سامنے بلا کم و کاشت سچی بات کہہ دینی چاہیے، چنانچہ میں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے نبیؐ! مجھ سے سستی ہو گئی ہے، ورنہ میں جلدی بھی نکل سکتا تھا، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، چونکہ تم نے وضاحت سے بات بتا دی ہے اس لیے جب تک ہمیں اوپر سے اشارہ نہیں ہوگا ہم اس بات کا جواب نہیں دیں گے،اس لیے نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو بھی فرما دیا کہ تم نے اس بندے سے نہیں بولنا.فرماتے ہیں کہ ایک میں تھا اور میرے علاوہ دو ساتھی اور بھی تھے، ایک مرارہ بن ربیعؓ اور دوسرے ہلال بن امیہؓ، ان دونوں کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا، وہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں بند ہو کر رہ گئے لیکن میں آتا جاتا رہا، اس طرح مجھے لوگوں کے ری ایکشن (ردعمل) کا پتہ چلتا رہتا تھا،میں نے ایک دن اپنے کزن ابوقتادہؓ سے بات کرنا چاہی لیکن اس نے مجھے جواب ہی نہ دیا، میں تو اسے اپنا جگری دوست سمجھتا تھا لیکن اس نے بھی بے رخی کا مظاہرہ کیا، میں نے اس سے کہا، اے ابوقتادہؓ، کیا آپ جانتے ہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں؟ اس نے جواب دیا، اللہ اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں، اس کا یہ جواب سن کر میں بہت ہی پریشان ہوا کہ اب میرا یہ حال ہے کہ مجھ سے کوئی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا.میرے دل میں یہ غم تھا کہ اگر اسی حالت میں میری موت آ گئی تو نبی کریمؐ میرے جنازے کی نماز بھی نہیں پڑھیں گے اور اگر نبی کریمؐ دنیا سے تشریف لے گئے تو اللہ کے محبوبؐ ناراض ہو جائیں گے اور یہ بھی خسارے سے کم نہیں تھا، اس غم نے مجھے بے چین کر دیا.ایک مصیبت اور آ پڑی کہ یہ بات چلتے چلتے عیسائیوں کے بادشاہ شاہ غسان جبلۃ ابن ایہم تک جا پہنچی، اس نے کسی کے ذریعہ میری طرف ایک خط بھیجا،اس میں اس نے لکھا کہ تمہارے سردار نے تمہیں بہت مشکل میں ڈالا ہوا ہے، لہٰذا اگر تم میرے پاس آ جاؤ تو میں تمہاری مدد بھی کروں گا اور تمہیں عزت بھی دوں، میں نے اس کا وہ خط تو تنور میں پھینک دیا، لیکن مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ شیطان کو حملہ کرنے کے لیے میں ہی ملا تھا کہ اب کافر مجھ سے طمع رکھنے لگ گئے ہیں، میں اتنا نیچے گر گیا ہوں اور میری حالت اتنی پتلی ہو گئی کہ کافروں کو مجھ سے اتنی بات کرنے کی جرات ہو گئی،اس کا یہ خط مجھ پر بجلی بن کر گرا.بڑی مشکل سے چالیس دن گزرے تھے کہ نبی کریمؐ کی طرف سے پیغام ملا کہ بیوی سے بولنا بھی بند کر دو… بیوی تو بڑھاپے کی لاٹھی ہوتی ہے، اس کی جتنی ضرورت جوانی میں ہوتی ہے اس سے زیادہ ضرورت بڑھاپے میں ہوتی ہے کیونکہ سارے کام وہی سمیٹتی ہے… جب بیوی سے نہ بولنے کا حکم ہوا تو پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی، میرے دوسرے ساتھی ہلال بن امیہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،اے اللہ کے نبیؐ! میں بوڑھا ہوں اور خدمت کی ضرورت ہے، فرمایا، ہاں تمہاری بیوی تمہارے باقی کام کر سکتی ہے لیکن تم حقوق زوجیت ادا نہیں کر سکتے، مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ تم بھی چلے جاؤ لیکن مجھے حجاب محسوس ہوتا ہے کہ میں کیسے جاؤں، میری یہ حالت ہوگئی کہ مجھے زمین کے اوپر سے زمین کے اندر کا زیادہ اچھا محسوس ہونے لگا، زمین اپنی پوری فراخی کے باوجود مجھے تنگ محسوس ہونے لگی.
’’حتیٰ کہ زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی.‘‘مجھے اللہ کے سوا کوئی ملجاد ماوی نظر نہیں آتا تھا… یہ ایسے ہی ہوتا ہے کہ آج کل کے دنیا دار لوگ مہینہ کی ابتدا میں تنخواہ ہاتھ میں لے کر کہتے ہیں، لوٹ لے موج بہار اور جب بیس پچیس دن گزر جائیں اور قرضے چڑھنے لگ جائیں تو کہتے ہیں. بلا لو مدینے والے، بندے کا یہی حال ہے کہ جب دکھ ہوتا ہے تو اللہ یاد آتے ہیں. فرماتے ہیں کہ مجھے بھی رہ رہ کر خدا یاد آتا تھا کہ اے اللہ! اب میری نظریں تیری ہی رحمت کی منتظر ہیں،میں اللہ کی طرف رجوع کرکے روتا تھا.جب پچاس دن گزر گئے تو نبی کریمؐ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے گھر میں تھے، وہیں اللہ رب العزت نے وحی کے ذریعہ اپنے پیارے حبیبؐ کو ہماری توبہ کی قبولیت کی خوشخبری دے دی، جب نبی کریمؐ نے یہ ارشاد فرمایا تو قبیلہ اوس کے حمزہ بن عمرؓ بھاگ کر میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے آ کر بتایا، میں یہ خوشخبری سن کر اتنا خوش ہوا کہ میں نے جو دو کپڑے پہنے ہوئے تھے، میں نے وہیں اس کو ہدیہ میں دے دئیے.جب میں مسجد میں آیا تو حضرت طلحہؓ نے مجھے مبارک باد دی، فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ کی یہ مبارکباد مجھے کبھی نہیں بھولے گی؟ واقعی یہی بات ہے کہ مشکل وقت میں جو کوئی محبت کا بول بولے اور پیار کی نگاہ سے دیکھے، اس کا وہ احسان بندے کو زندگی بھر یاد رہتا ہے… اس کے بعد نبی کریمؐ نے بھی مجھے مبارکباد دی جس کی مجھے انتہائی خوشی ہوئی… اللہ اکبر کبیرا وہ سچ بولا تھا. اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے معاملے کو ٹھیک فرما دیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ سچ واقعی نجات دیتا ہے.
..