ایک کھرب پتی کی بے بسی


ایک صاحب جن کو اللہ تعالیٰ نے جوانی میں بہت کچھ دے دیا، اتنا کچھ دیا کہ کئی ملوں کے یہ مالک ہیں، حالانکہ عمر بہت چھوٹی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم پہ راضی، اس بندے کے پاس اتنا مال تھا کہ اگر یہ روزانہ ایک جہاز خود کرائے پر لے کر اکیلے عمرہ کے لیے جاتا تو یہ روز عمرہ کرکے واپس آ سکتا تھا،لیکن اتنا پیسہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی شان کہ اس نے زندگی میں کبھی عمرہ ہی نہیں کیا تھا،

خیرایک موقع پر اس عاجز سے بیعت ہوگیا، پوچھا، بھئی عمرہ کیوں نہیں کیا؟ کہنے لگا جی بس میں کچھ اپنے آپ کو، اپنے دل کو سنوار لوں، پیس ہونے کے قابل ہو جاؤں، پھر میں نے اسے بات سمجھائی کہ دیکھو جب ہمارے کپڑے میلے ہو جاتے ہیں تو ان کو ہم دھلانے کے لیے لانڈری میں لے جاتے ہیں، کپڑوں کے وہاں جانے کا مقصد ہی یہ ہوتاہے کہ وہاں سے دھل کر آئیں گے، کبھی کپڑے نے یہ کہا کہ میں کچھ صاف ہو جاؤں تو پھر لانڈری جاؤں گا،

ہر بندہ کہے گا کہ بھئی اگر تو صاف ہو گیا تو پھر لانڈری جانے کی ضرورت ہی کیا، وہاں تو جاتے ہی دھلنے کے لیے ہیں، تو خدا کے بندے بیت اللہ شریف تو جاتے ہی دھلنے کے لیے ہیں، اگر ادھر ہی دھل گئے تو پھر تمہیں کیا ضرورت ہے جانے کی، اب اس کو بات سمجھ میں آئی، کہنے لگا جی میں عمرے پر جاؤں گا، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو شیطان نے ذہن میں ایسی رچا دی ہوتی ہیں کہ انسان فیض سے محروم ہو جاتا ہے.

. .