حجاج بن یوسف ایک شخص تھا اس امت میں جو بہت زیادہ سخت طبیعت رکھتا تھا اور جو اس کے دل میں بات آتی تھی اس کو کر دیتا تھا، ایک دفعہ وہ طواف کر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ مطاف کے اندر بیٹھ کر ایک اندھا دعا مانگ رہا ہے کہ اللہ میری آنکھوں کو بینا کر دے، مجھے روشنی عطا کر دے، وہ حجاج جب اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس نے پاؤں کی ٹھوکر مار کر کہا،او اندھے! تجھے پتہ ہے کہ میں کون ہوں، تو وہ بے چارہ حیران ہو گیا کہ یہ کون ہے؟ پوچھا کون؟ کہنے لگا کہ حجاج بن یوسف، وہ توگھبرا گیا تو حجاج بن یوسف ن ے کہا، دیکھ میں طواف کر رہا ہوں اور میرے چند چکر باقی ہیں، میرے طواف مکمل ہونے تک تیری آنکھیں ٹھیک نہ ہوئیں تو میں تجھے قتل کروا دوں گا اور ساتھ ہی ایک سپاہی بھی متعین کر دیا کہ اندھا بھاگنے نہ پائے، خود طواف کرنے لگ گیا، اب تو اندھے کا حال ہی عجیب ہوگیا، دعا مانگتا تھا کہ پہلے تو میں بینائی کا سوال مانگتاتھا، اب تو زندگی کا سوال ہے،
اس طرح تڑپ کر اس اندھے نے دعا مانگی کہ اس کے طواف ختم کرنے سے پہلے اللہ نے بینائی عطا فرما دی، حجاج بن یوسف نے کہا کہ میں نے اپنے بڑوں سے یہ بات سنی ہے کہ جیسے تم پہلے دعا مانگ رہے تھے، قیامت تک یہاں بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر وہ دعا پڑھتے رہتے تو تمہیں بینائی کبھی نہ ملتی، کیونکہ زبان سے الفاظ نکل رہے تھے، دل حاضر نہیں تھا، اب جب تمہیں جان کی فکرہوئی کہ میری موت اور زندگی کا سوال ہے اب تم نے تڑپ کر دعا مانگی اور جو بندہ اس مطاف میں تڑپ کر دعا مانگے اللہ کبھی اس کی دعا کو رد نہیں کیا کرتے.
یہاں امید سے زیادہ ملتا ہے حاتم طائی ایک امیر، سختی آدمی گزرا ہے، اس سے ایک مرتبہ کسی فقیر نے پانچ دینار مانگے تو اس نے اپنے نوکر سے کہا کہ اس کو پانچ سو دینار لا کر دے دو، نوکر بڑاحیران ہوا، کہنے لگا کہ جی پانچ دینار مانگے تھے، آپ نے پانچ سو دینار دینے کا حکم دے دیا، حاتم طائی نے کہا تھا وہ مانگنے والے کا ظرف تھا اور یہ دینے والے کا ظرف ہے، اگر دنیا کا سختی پانچ مانگنے والے کو پانچ سو دے دیا کرتاہے تو وہ تو سب کا کریم آقا ہے، آج ہم جتنا مانگیں گے یقیناً ہمارے اندر کی تڑپ کو دیکھتے ہوئے وہ پروردگار پھر اپنی شان کے مطابق عطا کر دے گا.