’میں نوکری کیلئے سعودی عرب گئی، پہنچتے ہی میرے شوہر کو مجھ سے علیحدہ کردیا گیا اور کفیل نے کہا اس شرمناک کام کیلئے تیار ہوجاﺅ


عرب ممالک روزی کمانے کے لئے جانے والے مردوں کے لئے بھی حالات اچھے نہیں رہے، تو ایسے میں غریب ممالک سے آنے والی خواتین کی حالت زار کا اندازہ کرنا مشکل نہیں. بھارت سے بھی خواتین کی بڑی تعداد حصول روزگار کے لئے سعودی عرب کا رخ کرتی ہے، مگر وہاں انہیں کسی طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ بھارتی شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کے ساتھ پیش آنے والے دلخراش معاملات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے.

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق نورجہاں اکبر نامی لڑکی اور اس کے خاوند کو ممبئی شہر کے ایک ایجنٹ نے سعودی عرب بھجوایا. ائیرپورٹ پہنچتے ہی لڑکی کے خاوند کو ایک گھر میں ملازمت کے لئے بھیج دیا گیا جبکہ اسے دمام شہر کے ایک بیوٹی پارلر بھجوا دیا گیا. نورجہاں کا کہنا تھا کہ پارلر پہنچے پر کفیل نے انہیں بتایا گیا کہ وہ ’ہوم سروس‘ فراہم کریں گی، جس کا مطلب جسم فروشی تھا. جب انہوں نے انکار کیا تو ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا اور پھر سبق سکھانے کے لئے جھوٹے مقدمے میں پھنسا کرجیل بھجوا دیا گیا. وہ گزشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب سے واپس آئیں تو ان کے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی تھیں، جو اسی قسم کے حالات سے گزرچکی تھیں.نورجہاں کا کہنا تھا کہ اس کا کفیل اسے بھی ہوم سروس کیلئے بھیجنا چاہتا تھا، لیکن انکار پر اسے بے حد شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا، بال کھینچے گئے اور جسم پر گہرے زخم لگائے گئے. اس کا یہ بھی کہناتھا کہ وہ جس بیوٹی پارلر میں کام کرتی تھی وہاں کچھ لڑکیوں نے جسم فروشی پر مجبور کئے جانے پر خود کشی کی کوشش بھی کی. ان میں سے ایک لڑکی نے اپنی کلائی کاٹ لی اور دیگر کچھ لڑکیوں نے بالائی منزل سے کود کر خود کشی کرنے کی کوشش کی. نور جہاں نے بتایا کہ ” بہت سی غیر ملکی لڑکیوں کو ملازمت کے بہانے بلایا جاتا ہے لیکن پھر ہوم سروس کے لئے مجبور کیا جاتا ہے. جب کسی لڑکی کو ہوم سروس کیلئے بھیجا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے وہاں موجود مردوں کو جسمانی خدمات فراہم کرنی ہیں.“