انیس سو اکہتر کی جنگ میں پاکستان پر دشمن کا حملہ اچانک غیر اعلانیہ ہوا جسکی بنا پرپاک فوج کو وطن کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہونا پڑا جہاں بہت سی اہم قومی تنصیبات کی حفاظت پاک فوج کی ترجیح تھی وہیں پاک فوج کی ترجیح تھی کے دریاۓ جہلم کے پل کی حفاظت کی جاۓ یہ وہ پل تھا جہاں سے پاک فوج کے ٹرک دوسرے شہروں میں موجود فوجی یونٹس ، آزاد کشمیر ، کھاریاں چھاؤنی اور منگلا ڈیم پر تعینات فوجی بیرکوں کو ایمونیشن سپلائی لاتے اور دوسری یونٹس میں منتقل کرتے تھے ۔
منگلا ڈیم دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے اور فوج کی ایک بڑی تعداد وہاں حفاظت کیلیے تعینات تھی پاک فوج کا دوسری یونٹس میں رابطے اور سپلائی رکھنے کا ذریعہ دریاۓ جہلم پر واقع پل تھا جہاں پر سخت پہرا دیا جاتا تھا اس پل کی تباہی سے پاک فوج کے کئی بیرکوں میں رابطے اور سپلائی کٹ جانا تھی اس لیے دریاۓ جہلم کے ارد گرد کا علاقہ حساس تھا اور پاک ائیر فورس پل کی حفاظت کیلئے ہائی الرٹ تھی عام طور پر دشمن رات کے اندھیرے میں حملہ آور ہوتے تھے جگہ جگہ شہریوں کیلئے بھی مورچے بنے تھے جہاں بھی ہوں چھپ کر اپنی حفاظت کریں
ایسے ہی ایک روز دن دیہاڑے جنگی سائرن بجنے شروع ہوگئے کچھ لوگ خوفزدہ ہو کر مورچوں میں چھپ گۓ جبکے کچھ آسمان پر چوری چھپے منظر دیکھ رہے تھے دھماکوں کی گونج تھی جہازوں کے اڑنے کا شورتھا ، لوگوں نے دیکھا کے دشمن کے جہاز دریا کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں لیکن پاک ایئر فورس کے شاہین انھیں گھیرنے کی کوشش کررہے تھے کبھی نیچی پرواز سے تو کبھی ہوائی شوٹنگ سے دشمن کے جہاز کو ٹارگٹ کرتے آسمان میں ڈاگ فائٹ شروع ہو چکی تھی چنگاڑیں دھماکے اور جنگی جہازوں کا ہولناک شور تھا ہائی کمانڈ کی جانب سے ائر فورس پائلٹس کو ہدایت دی جارہی تھیں سو فیصد ہدف تھا کسی صورت دشمن کا جہاز جہلم کے پل تک نہ پہنچ پاۓ اسے بچایا جاۓ اسکی تباہی سے پاک فوج کا شدہد نقصان ہوگا پاک ائر فورس کے شاہین پلٹ کر جھپٹ کر وار کرتے جواب میں دشمن کے جہاز چنگاڑ تے اور فائر کرتے لیکن کچھ ہی دیر بعد ہمارے شاہینوں کی جوابی کاروائی پر نکل بھاگے
لیکن جب پاک فوج کے فائٹر ان سے الجھے ہوۓ تھے اس صورتحال میں دشمن کا ایک فائٹر جیٹ پاک فورس کے جہازوں کوچکمہ دے کر انکے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور دریاۓ جہلم کے پل کی جانب اسکا رخ تھا، اب کھیل صرف لمحوںکا تھا یا تو اسے ہر صورت دریا کے اوپر ہی مار گرایا جاۓ یا پھر وہ پل تباہ کر دے گا جونہی دوسرے فائٹرجہاز بھاگے ایرفورس کے جیٹ تیزی سے دشمن کے اس جہاز کے تعاقب میں دوڑے لیکن اب انکی دھڑکنیں تھم رہیں تھیں لمحوں کی دیر ہوچکی دشمن کا جہاز پل کی طرف جا رہا تھا_ اب وہ تھا اور پل تھا اب بازی پاک فوج کے شاہینوں کے ہاتھ سے نکل چکی تھی دشمن ایک انتہائی اہم ہدف ہٹ کرنے والا تھا
بس ایک لمحے میں وہ بم گرا دے گا وہ پل کے اوپر پہنچ گیا پاک ایئر فورس کے فائٹر جیٹ بھی پہنچ گۓ لیکن اسکو پل کے اوپر گرا بھی نہ سکتے تھے کے پل کو بچانا چاہتے تھے سو فیصد انھیں یقین ہو چکا تھا دشمن یہ موقع نہیں گنواۓ گا اپنا ٹارگٹ ضرور ہٹ کرے گا لیکن عجیب بات ہوئی دشمن کا جہاز پل کے اوپر چکر لگا رہا تھا لیکن بم نہ گرایا _ لمحوں کی مہلت تمام ہوئی ہمارے شاہینوں نے اسکو چاروں جانب سے گھیر لیا اب وہ اسکے دائیں بائیں فائر کرکے اسے دھکیلنا چاہتے تھے اور وہ اسکو پل سے ہٹا کر دور لے گۓ اب دو ہی آپشن تھے یا تو اسے فضا میں ہی تباہ کر دیا جاۓ یا وہ سرنڈر کرے ،جان بڑی قیمتی ہے دشمن کو سرنڈر کرنا پڑا اور ہمارے شاہینوں نے اسے زمین پر اتار لیا
دشمن کو پاک فوج نے گرفتار کر لیا اور اسکا جہاز بھی قبضے میں لے لیا جہاں سے انھیں جہلم کے علاقے کا نقشہ بھی ملا اور پل کی جگہ پر لال نشان لگا تھا جو کے اسکا ہدف تھا ، اس پائلٹ کی پوچھ گوچھ شروع ہوئی ایک معمہ تھا کے وہ پل کے اوپر تھا اسکے پاس موقع تھا اس نے بم کیوں نہ گرایا اور اسکے اوپر چکر لگا کر موقع ضائع کر دیا ، پاک فوج کے سینئر حکام اس سے انٹروگیشن کرنے پہنچے اور سوال کیا تم نے بم کیوں نہیں گرایا تھا جبکے تم پل کے اوپر تھے اس نے کہا کے وہ پل ہی تباہ کرنے آے تھے تاکے فوج کی سپلائی لائن کاٹی جاۓ وہ ٹھیک اپنے ہدف تک پہنچ گیا تھا نقشہ اسکے پاس تھا سب جگہ وہی تھی وہی جہلم وہی دریا اور وہی سب عمارتی نشانیاں تھیں سب کچھ تھا لیکن نہیں تھا تو پل نہیں تھا پل غائب تھا نقشہ کے مطابق جہاں پل ہونا چاہئیے تھا وہاں پر ایک بوڑھا شخص ہوا میں معلق دکھائی دیا
اور وہ مسلسل ہوا میں کھڑا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھور رہا تھا اس نے کہا پتا نہیں وہ عجیب و غریب بوڑھا فضا میں کیسے پہنچا لیکن وہ پل تلاش کر رہا تھا،آرمی افسران نے اسکا جواب سنا تو ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکراۓ اور اٹھ کر چلے گۓ ، انھیں ساری بات سمجھ آگئی پل وہیں تھا لیکن جہاں پاک فوج کے پائلٹ پسپا ہو گۓ وہاں اللہ کی غیبی مدد سے پل دشمن کی نظروں سے غائب ہوگیا اور وہ بم گرا کر تباہ نہ کرسکا ، جبکے وہ جس بوڑھے کا ذکر کررہا تھا گمان یہی تھا کے دریاۓ جہلم کے کنارے حضرت سلیمان پارس کا مزار ہے اور طور پر یہی کہا جاتا ہے کے وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہہ والہہ وسلم تھے دشمن کا ہوا میں معلق کسی پراسرار بوڑھے کو بمباری کے دوران دیکھنا یہی ظاہر کرتا تھا کے وہ بزرگ صحابی رسول ہی ہوسکتے ہیں جنہوں نے اسے اللہ کے حکم سے کامیاب نہیں ہونے دیا ، فوجی افسران بلکل بھی حیران نہ تھے انہوں نے اللہ کی غیبی مدد کے اتنے کرشمے دیکھے تھے کے انھیں دشمن کے پائلٹ کے بیان سے کوئی الجھن نہ تھی ، پاکستان اللہ کے نام اور اسلام کی سربلندی کیلئے بنا تھا انشاللہ پاکستان پر اللہ کا سایہ ہمیشہ قائم رہے گا اسے ختم کرنا ناممکن ہے