طلاق نے کیسے لڑکی کی زندگی برباد کردی سچا واقعہ


نوٹ: یہ ایک سچا واقعہ ہے، اس میں نام فرضی استعمال کیا گیا ہے، تمام والدین طلاق لینے سے پہلے اس کو پڑھ کر عبرت حآصل کریںجب ماں باپ اولاد کو اپنی اناءکی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، طلاق لے کر علیحدہ ہو جاتے ہیں اور اولاد کو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں توبے کس و لاچار اولاد پر کیا گزرتی ہے اور اسے کیا کچھ سہنا پڑتا ہے، اس لڑکی کی کہانی اسی بے بسی اور لاچاری کی غمازی کرتی ہے۔۔

ماہم(فرضی نام)16سال کی تھی جب اس کے ماں باپ میں طلاق ہو گئی اور دونوں نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں اس کے باپ کا ایک شفیق دوست آگے بڑھا اور ماہم کو گود لے کر اپنی بیٹی بنا لیا۔ سگے ماں باپ کی ٹھکرائی ماہم اس نئے گھر اور نئے خاندان میں آ گئی، جہاں اسے بہت محبت اور پیار ملامگر تین ماہ بعداچانک اس کی دنیا اس وقت مصائب کے گرداب میں دھنس گئی جب اس کے منہ بولے باپ کا چھوٹا بھائی ان کے گھر رہنے آ گیا۔ وہ ماہم سے پیار جتاتا اور ماہم سمجھتی کہ وہ بھی دوسرے افراد کی طرح اس سے محبت کرتا ہے تاکہ اسے اجنبیت کا احساس نہ ہو لیکن اس بدطینت شخص کے ذہن میں خباثت بھری پڑی تھی۔۔

رپورٹ کے مطابق چند روز بعد ہی اس شخص نے ماہم کو ایک یو ایس بی دی اور اسے کچھ فلمیں ڈاﺅن لوڈ کرنے کو کہا۔ ماہم نے یو ایس بی لی اور فلمیں ڈاﺅن لوڈ کرنے لگی تو اس نے دیکھا کہ اس میں کافی تعداد میں فحش فلمیں موجود تھیں۔ وہ اپنے اس منہ بولے چچا کی نیت بھانپ گئی لیکن خاموش رہی کہ لے پالک تھی۔ ڈرتی تھی کہ کون اس کا اعتبار کرے گا۔ اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں اس کی وجہ سے اس گھر میں فساد برپا نہ ہو جائے۔جب ماہم نے یوایس بی اسے واپس کی تو اس نے فلموں کے بارے میں پوچھا لیکن ماہم خاموشی سے سر جھکائے وہاں سے چلی گئی۔ اگلے روز ماہم کچن میں تھی کہ وہ شخص اس کے کمرے میں چلا گیا۔ جب ماہم اپنے کمرے میں گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ اس کے کپڑوں کو سونگھ رہا تھا۔ جب ماہم نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو اس نے ماہم کے ساتھ چھیڑخانی اور بوس و کنار شروع کر دیا۔ خونی رشتوں کی ٹھکرائی اس لاچار لڑکی کے پاس خاموشی کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔۔

پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔ اس شخص نے ماہم کو سکول لانے لیجانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی، تاکہ اسے کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ وہ گاڑی میں اسے پورا راستہ تنگ کرتا۔ 3سال تک ماہم یہ استحصال چپ چاپ برداشت کرتی رہی۔ پھر ایک روز اس پر قسمت مہربان ہوئی۔ جو کچھ وہ اپنی زبان سے نہیں بتا سکتی تھی وہ قدرت نے سب پر آشکار کر دیا۔ ایک روز وہ بدطینت شخص اسے کمرے میں پکڑ کر بوس و کنار میں مصروف تھا کہ اس کی بھابی، ماہم کی منہ بولی ماں نے اسے دیکھ لیااور آ کر اس کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔وہ اوباش شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا بھابی سے لڑنے لگا اور اسے ہی بدچلن قرار دینے لگا۔ آواز سن کر تمام گھر والے وہاں آ گئے۔ اس نے اپنے بھائی کے سامنے بھابی پر بدچلنی کے الزامات لگائے لیکن ماہم کا یہ سوتیلا باپ سمجھدار اور مہربان واقع ہوا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کے الزامات پر کان دھرنے کی بجائے اسے فوری طور پر گھر سے نکل جانے کو کہہ دیا۔

جس طرح یہ مصیبت ماہم کے سر پر سوار ہوئی تھی اسی طرح اچانک دور ہو گئی۔ تب گھروالوں کے پوچھنے پر ماہم نے پوری کہانی انہیں سنائی۔ ماہم کی کہانی تو ایک مثال ہے۔ نجانے کتنے لاچار بچے ہیں جو اپنے ماں باپ کی اناءکی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ایسے خودغرض والدین سے پوچھا جانا چاہیے کہ میاں بیوی میں ہزار تلخیاں ہو جائیں مگر کیا اولاد کسی بھی طور نباہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ نہیں ہوتی؟